مرسل سید زبیر ہاشمی
حج بیت اﷲ بھی نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح فرض عین اور ارکان اسلام سے ہے ۔ حق تعالیٰ نے سورہ آل عمران میں ارشاد فرمایا ہے: ’’ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ‘‘ {آل عمران۔ آیت ۹۷} ترجمہ: خدا کی بندگی کے لئے ان لوگوں پر خانہ کعبہ کا قصد کرنا واجب ہے جواس گھر کی طرف راہ چلنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت ’’ وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ‘‘ الخ نازل ہوئی تو حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب قوموں کو جمع کر کے اس کاحکم سنایا۔ اس کو مسلمانوں نے تو مان لیا، لیکن یہود، نصاریٰ، مجوس، صابئین اور مشرکین ان پانچ فرقوں نے نہ مانا تب حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ {آل عمران ۔ آیت ۹۷} ترجمہ : اور جو نہ مانے { اس سے کہہ دو کہ } اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے ۔ یعنی جواس حکم کو بجا نہ لائے اور انکار کرے وہ کافر ہے اور اللہ کو کسی کی عبادت کی حاجت نہیں، الحاصل اس عبادت سے کچھ اللہ کا بھلا نہیں ہوتا بلکہ عبادت کرنے والے کو بھلائی حاصل ہوتی ہے اور اس کے نہ کرنے سے وہ بھلائی کھو کر آپ برا بنتا ہے ۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میںابوہریرہ ر ضی اﷲ عنہ سے روایت ہے’’اَلْعُمْرَۃُ اِلیَ الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا وَ الْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہ‘ جَزَائٌ اِلَّا الْجَنَّۃ‘‘ ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اورحج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے ۔ حج مبرور حج مقبول کو کہتے ہیں ، اس کی علامت یہ ہے کہ حاجی اپنے آپ کو گناہوں سے بچائے اوراس کا حج محض خدا کیلئے ہو۔ اس میں فخر و ریا و غیرہ کا کچھ دخل نہ ہو۔
صحیحین میں ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے دوسری روایت اس طرح مذکور ہے کہ جس نے خدا کیلئے حج کیا اور عورتوں سے خواہش کی بات چیت نہ کی اور ساتھ والوں سے گالی گلوج جھگڑا نہ کیا وہ پلٹتے وقت ایسا پاک ہوا کہ گویا اسی دن اس کو اسکی ماں نے جنا ہے ۔ جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ حضرت سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ تَابِِعُوْا بَیْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَۃِ فَاِنَّھُمَا یَنْفِیَانِ الذُّنُوْبَ وَ الْفَقْرَ کَمَا یَنْفِی الْکِیْرُ خُبْثَ الْحَدِیْدِ وَ الذَّھَبِ وَ الْفِضَّۃِ‘‘ حج اور عمرہ کو ساتھ ساتھ ادا کرو اس لئے کہ یہ دونوں گناہوں اور محتاجی کو اس طرح دور کرتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو دور کرتی ہے ۔
حاکم اور بیہقی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سوار حاجی کیلئے اونٹنی کے ہر قدم پر سو نیکیاں ہیں اور پیادہ حاجی کیلئے ہر قدم پر سات سونیکیاں ہیں جو حرم کی نیکیوں میں سے ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! حرم کی نیکیاں کیسی ہیں ؟ فرمایا ہر نیکی، لاکھ نیکی کے برابر ہے یعنی مکہ میں ایک نیکی، لاکھ نیکی کے برابر ہے ۔ ایک رکعت، لاکھ رکعت کے برابر، ایک نفلی روزہ، لاکھ نفلی روزے کے برابر، اور ایک درہم للہ دینا، لاکھ درہم کے برابر ہے ۔
حج ، عمرہ ، اِفْراد ، تَمَتُّع ، قِران :
حج کہتے ہیں احرام باندھ کر عرفات پر ٹھہرنے اور اوقات معین میں طواف زیارت کرنے کو ۔
عمرہ کہتے ہیں احرام باندھ کر کعبہ کے طواف اور صفا مروہ میں سعی کرنے کو ۔ عمرے میں طواف قدوم اور طواف وِداع نہیں ہوتا ۔ حج میں دونوں ہوتے ہیں ۔ مگر پہلا سنت اور دوسرا واجب ہے اور حج بالاتفاق فرض ہے اور عمرہ امام ابو حنیفہ و امام مالک کے نزدیک سنت ہے اور امام شافعی کے مذہب میں حج کی طرح یہ بھی فرض ہے۔
اِفراد کے معنی ہیں تنہا حج اس طرح پر کرنا کہ عمرہ اس سال نہ کرنا یا اس کو بعد ایام حج یا قبل شوال ادا کرنا۔ تنہا عمرہ اس طرح کرنا کہ اس سال حج نہ کرنا یا کرنا تو عمرہ کو شوال سے پہلے یا ایام حج کے بعد ادا کرنا ۔
تمتع کے معنی ہیں حج کے مہینوں میں احرام باندھ کر عمرے کے افعال کرنا اور وطن جانے سے پہلے احلال کے قبل یا اس کے بعد احرام باندھ کر حج بھی کرنا لیکن اگر قربانی ساتھ لی ہو تو اس کو حج سے پہلے حلال ہوناجائز نہیں ہے ۔
قِران کے معنی ہیں حج اور عمرے کو جمع کرنا یعنی دونوں کو حج کے مہینوں میں ایک احرام سے ادا کرنا یا احرام حج کو احرام عمرہ میں طواف عمرہ سے پہلے داخل کرنا یا احرام عمرہ کو احرام حج میں عرفات سے لوٹنے کے پہلے داخل کرنا لیکن اخیر صورت میں گہنگار ہوگا ۔
پس تمتع میں دو احرام اور دو تلبیہ ایک سفر میں لازم ہے اور قران میں ایک احرام ایک تلبیہ ایک حلق سفر واحد میں چاہئے ۔ اور تمتع اور قِران میں قربانی واجب ہے خواہ میقات سے ساتھ لی ہو یا نہیں اور قارن پر ایک جنایت کی دو جزا لازم آتی ہیں اور مُفرد متمتع پر ایک ۔ مگرجو متمتع احرام عمرہ سے خارج نہ ہو کر احرام حج کے بعد جنایت کرے وہ قارن کا حکم رکھتا ہے ۔
اِفراد اور قِران کے نام کی وجہ تو ظاہر ہے اور تمتع کے نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ متمتع احرام عمرہ و احرام حج کے درمیان میںممنوعات احرام سے فائدہ اٹھاسکتا ہے ۔ بخلاف قارن کے کہ اگر وہ عمرہ کے بعد مثلاً سرمنڈھالے تو اس پر قربانی واجب ہوگی ۔ {از: نصاب اہل خدمات شرعیہ}
zubairhashmi7@gmail.com