حج انتظامات قابل ستائش

اک سوال کی لو سے ہونٹ جھلستے جاتے تھے
ایک جواب کی ٹھنڈک آہ کے برابر تھی
حج انتظامات قابل ستائش
حکومت سعودی عرب کی جانب سے اس سال مناسک حج کیلئے کامیاب انتظامات پر زبردست ستائش کی جارہی ہے۔ شاہ سلمان نے حج انتظامات سے استفادہ کرتے ہوئے اسلام کے اس عظیم رکن اور فریضہ ادا کرنے والے تمام حجاج کرام کو مبارکباد دی ہے۔ شاہ سلمان کے علاوہ شہزادہ خالدالفیصل اور امام و خطیب حرم شریف عبدالرحمن السدیس نے آئندہ بھی حج اُمور کی پرسکون ادائیگی کو یقینی بنانے کے لئے موثر اقدامات کی توقع ظاہر کی ہے۔ گزشتہ سال جمرات میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ کے سانحہ میں سینکڑوں حجاج کرام کے جان بحق ہونے کے بعد حکومت سعودی عرب پر شدید تنقیدیں کی جارہی تھیں اور بعض گروپس نے حج کے اُمور کو سر انجام دینے کے حوالے سے سعودی عرب کی صلاحیت پر شکوک و شبہات بھی ظاہر کئے تھے۔ بلاشبہ حکومت سعودی عرب اور اس کے تمام اداروں نے حج انتظامات کو موثر طریقہ سے انجام دے کر اقطاع عالم سے آنے والے اللہ کے مہمانوں کی میزبانی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس سال حج اُمور کی نگرانی کرنے والی وزارتوں اور محکموں نے منفرد اقدام بھی کئے تھے، خاص کر 24 گھنٹے نگرانی پروگرام اور غیرقانونی عازمین کو مکہ معظمہ کے حدود میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے جس طرح کی ناکہ بندی کی گئی تھی، اس سے غیرضروری ہجوم کو بڑھنے سے روکا جاسکا۔ حرم شریف سے اطراف و اکناف حکومت کی جانب سے عازمین کی رہنمائی کرنے کے علاوہ کتابچے شائع کرواکر تقسیم کئے گئے جس میں مکمل جانکاری فراہم کی گئی تھی۔ دیگر خدمات میں حرم شریف میں مطاف کے علاقہ کی توسیع ایرکنڈیشنڈ سرویس ، برقیانے اور صفائی کے انتظامات کو موثر بنایا گیا تھا۔ آب زم زم کی تقسیم و سربراہی کا نظام بھی حجاج کرام کیلئے سہولت بخش تھا۔ حج ایک ایسا دینی فریضہ ہے جو پوری اُمت مسلمہ کے اتحاد کا مظہر ہے۔ وادیٔ منٰی میں جمع ہونے والے اقطاع عالم کے مسلمانوں کا اجتماع ایک ہی لباس اور ایک ہی آواز بلند کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے ساتھ ساری دنیا کے سامنے یہ حج مسلمانوں کی قوت و شان کا اظہار بھی ہے۔ مسلمانوں کے اندر اس عظیم اتحاد اور یکجہتی کو دیکھ کر بعض طاقتیں اس سازشوں میں مصروف رہتی ہیں کہ حج اُمور کو درہم برہم کرکے حکومت سعودی عرب کو نشانہ بناسکیں۔ حج انتظامات کو کمزور کرتے ہوئے ساری دنیا سے آنے والے مسلمانوں کے لئے مصائب سے دوچار کرنے کی بھی سازش کا مقصد مسلمانوں کی قوت اور عزم کو متزلزل کرنا بھی ہوسکتا ہے، لیکن حکومت سعودی عرب نے ہر سال کی طرح اس سال بھی حج کے لئے مثالی انتظامات کئے تھے۔ پہلے سے زیادہ چوکسی اور احتیاط پسندی سے اس سال حج کے دوران کوئی سانحہ نہیں ہوا۔ لاکھوں حاجیوں کو یکساں سہولتیں فراہم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ سعودی حکومت نے حج انتظامات کو کسی خاص منافع کی غرض سے انجام نہیں دیا ہے بلکہ یہ خالص حاجیوں کی خدمت کا جذبہ ہے جس کو پوری دیانت داری سے انجام دیا جاتا ہے۔ ساری دنیا کے تقریباً 164 ملکوں سے آنے والے مسلمانوں کی تہذیب مختلف ہوسکتی ہے مگر مکہ معظمہ پہنچ کر یہ مسلمان ایک آواز ہوکر صف بندی کرتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑی قوت اور شاندار اجتماع کا مظہر ہوتا ہے۔ اس عظیم اجتماع کے لئے وسیع تر انتظامات کرنے کا تجربہ اور مہارت صرف سعودی وزارت حج کو حاصل ہے۔ اس لئے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ ان کا سفر مقدس محفوظ اور سہولت بخش ہوگا۔ حکومت سعودی عرب نے حجاج کرام کی بہتر خدمت انجام دینے کی خاطر ہی ایک حج ریسرچ سنٹر قائم کیا تھا۔ برسوں پرانے اس سنٹر کی تحقیق کی وجہ سے ہی کئی مرتبہ اصلاحات لاکر حج اُمور کو محفوظ اور آسان بنایا گیا۔ آئندہ بھی اس میں مزید اصلاحات لاکر حجاج کرام کیلئے بہتر سے بہتر سہولیات اور مناسک حج کو آسان بنانے کے لئے اقدامات کئے جانے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ آنے والے برسوں میں سالانہ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے آنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ حکومت سعودی عرب جہاں عازمین حج کی تعداد میں اضافہ کرتے جارہی وہیں ہندوستان کو الاٹ کردہ کوٹہ میں بھی اضافہ کردے تو ہندوستانی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو سالانہ فریضہ حج کی ادائیگی کا موقع ملے گا۔ محدود کوٹہ کی وجہ سے ہر سال کئی مسلمانوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ مرکزی حج کمیٹی آف انڈیا نے حکومت سعودی عرب کے مخصوص کوٹہ کے مطابق ہی ساری ریاستوں کے لئے کوٹہ مقرر کرکے بھی عازمین کی سعودی عرب روانگی کے لئے موثر انتظامات کئے ہیں، یہ بھی قابل مبارکباد ہیں۔
اروناچل پردیش کا بحران
’’کانگریس سے مکت بھارت‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے اس قومی پارٹی کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرنے کی سازشوں کو تیزی سے بروئے کار لانا شروع کیا ہے تو اس کا ثبوت اروناچل پردیش میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ملتا ہے۔ اس ریاست میں کانگریس کا تعاقب کرنے والی بی جے پی کو دو ماہ قبل اس وقت شدید دھکا پہنچا تھا، جب سپریم کورٹ نے کانگریس حکومت کو دوبارہ بحال کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ بی جے پی اس قانونی لڑائی میں شکست کو برداشت نہیں کرسکی۔ ریاست اروناچل پردیش کے تمام 42 ارکان اسمبلی کا انحراف اور چیف منسٹر کی قیادت میں علاقائی پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ ملک بھر میں قومی پارٹیوں کی افادیت کو کمزور کرکے علاقائی پارٹیوں کی غیراصولی ترغیب و تائید کا چلن عام ہونے سے جو نتائج برآمد ہوں گے، اس پر سیاسی پنڈتوں کو غور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اروناچل پردیش کی ڈرامائی تبدیلیوں کے ملک کے سیاسی مستقبل پر کیا اثرات مرتب کریں گے یہ بھی غور طلب ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں انحراف کی سیاست کا رجحان نیا نہیں ہے۔ خود کانگریس بھی ماضی میں ایسے کھیل کو پسندیدگی کا مقام دے چکی ہے۔ ایک دیرینہ تجربہ کی حامل پارٹی کی حیثیت سے کانگریس ہمیشہ سیاسی اتھل پتھل کے حالات سے خود کو بچاکر نکلنے میں کامیاب بھی ہوتی آئی ہے۔ اس مرتبہ مرکزی سطح پر بی جے پی کی طاقتور قیادت نے کانگریس کو ایک کے بعد دیگر ریاستوں میں کمزور بنانے کی مہم میں کامیابی کو یقینی بنانا چاہا ہے تو کانگریس سے پاک ہندوستان کی پالیسی اور منصوبہ بھی کامیاب بنانے کی کوشش کرے گی۔ ایسے میں کانگریس کا سیاسی شعور اور تجربہ کیا رنگ لائے گا، یہ وقت ہی بتائے گا، اس وقت پارٹی خود اپنی کمزور قائدانہ صلاحیتوں کا شکار ہے اور جب بُرے دن آنے ہوتے ہیں تو اس طرح کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، ایسے حالات پر قابو پانے کے لئے کانگریس کی موجودہ قیادت حکمت عملی سے عاری معلوم ہوتی ہے۔