ہر دور میں یہ ملک روادار رہا ہے
اور اس کی بقا ہی میں تو حب الوطنی ہے
حب الوطنی
ملک کے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کیلئے ہر پارٹی کوشاں ہے۔ ہر لیڈر کو اپنا منصوبہ کرنے کا اختیار ہے۔ رائے دہندوں کو سچائی کی بنیاد پر ووٹ کیلئے راغب کرنا ایک کامیاب جمہوری عمل ہوتا ہے۔ آئین اور قانون کی بالادستی کا سبق پڑھانے والے قومی اداروں کو چلانا بھی ایک منتخب لیڈر اور حکومت کا فریضہ ہوتا ہے لیکن جاریہ انتخابات کو جھوٹ پر مبنی نعروں اور وعدوں کے ذریعہ کامیاب کرنے کی کوشش میں بعض فرقہ پرست طاقتوں نے میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کجریوال نے بی جے پی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی حب الوطنی کو عام کرنے کیلئے میڈیا کا سہارا لینے پر تنقید کی ہے۔ حب الوطنی کے اس جھوٹ کو عام کرکے عوام الناس کے ذہنوں کو منتشر کرنے کی کوشش بلاشبہ ایک گہری سازش کا حصہ ہے۔ انتخابات میں قومی فکر کی حامل قیادت کو ترجیح دی جانی چاہئے مگر بی جے پی قائدین نے نظریاتی فکر کے ساتھ گمراہ کن پروپگنڈوں کو اپنا انتخابی مہم کا ہتھیار بنا لیا ہے تو قومی سطح سے اٹھ کر حب الوطنی کے جذبہ کو گلی کوچوں میں لے آنے والے قائدین دراصل ملک کی سیکولر روایت کو پامال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ کے بیان کے بعد عوام الناس کی آنکھ کھل جانی چاہئے کہ آخر یہ پارٹی اور اس کے قائدین کا ایک نکاتی منصوبہ کیا ہے؟ مودی کے مخالفین کو ہندوستان چھوڑ دینے کا بیان دستوری اصولوں کے مغائر ہے۔ کوئی بھی پارٹی یا لیڈر غیرجمہوری، غیردستوری اور غیرقانونی طریقوں کے ذریعہ ملک کی قیادت کا خواب دیکھتا ہے تو جمہوریت پسند دستور کے پابند عوام ہی اسے سبق سکھا سکتے ہیں۔ بی جے پی اپنے نظریاتی نعروں یا مصنوعی حب الوطنی کے جذبہ کے ذریعہ قومی قیادت سنبھالتے ہوئے انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ حقیقی طور پر قومی جذبہ کا فقدان کسی پارٹی کو مضبوط بنیاد فراہم نہیں کرسکتا۔ کسی بھی ملک میں عوام کی مرضی سے ہی انقلاب لایا جاتا ہے کیونکہ دستور کی پابندی کرنے والے عوام کو غیرجانبدارانہ خیالات کے ذریعہ تبدیلی کیلئے اکسانا سراسر فریب اور دھوکہ کہلاتا ہے۔ سیکولر پارٹیوں نے جب بی جے پی لیڈر گری راج سنگھ کے شرانگیز بیان کا سخت نوٹ لیا تو بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دینے لگا ہے اگر بی جے پی کے دوچار قائدین گری راج سنگھ کی طرح بیانات دیں تو عوام الناس کی رائے موافق سیکولر ہونے میں دیر نہیں ہوگی۔ اس ملک کے رائے دہندوں کو ظالموں کے خلاف، کرپشن کے خلاف، لاقانونیت کے خلاف، فرقہ پرستوں کے خلاف اور ہر استحصالی قوت کے خلاف جو انسانوں میں اپنی فرقہ پرستی کا زہر پھیلا رہے ہیں، اپنی ووٹ کی طاقت سے سبق سکھانے کا سیکولر قائدین مشورہ دے رہے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو جمہوری و دستوری اور سیکولرازم کے سنہری اصولوں پر استوار کرکے دنیا پر یہ ثابت کیا جانا ضروری ہیکہ سیکولرازم کے اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آزادی کے بعد سے اب تک جاری تھے۔ بی جے پی اور اس کی حمایت کرنے والی پارٹیوں نے سیکولرازم کے حوالے سے اپنا الگ نظریہ قائم کرکے جاریہ انتخابات کے عمل کو غلط ملط کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمی اور قومی سطح پر ہندوستان کے سیکولر مزاج کی ستائش کی جاتی رہی ہے مگر جب سے بی جے پی اور اس کے فرقہ پرست قائدین کے دامن مسلمانوں پر ظلم اور ان کے قتل عام کے الزامات سے داغدار ہوتے ہیں ان طاقتوں کی دشمنی سے ملک کے اقلیتوں دفاع اس وقت مشکل ہوجائے گا جب انہیں کامل اختیارات حاصل ہوں گے۔ عوام میں اعتماد سازی کے اقدامات کرنے کے بجائے بی جے پی کے قائدین خاص کر گری راج سنگھ نے سیکولر رائے دہندوں خاص کر مسلمانوں کی آنکھ کھول دی ہے کہ بی جے پی کے اقتدار پر آنے کے بعد ان کا مستقبل کیسا ہوگا۔ نریندر مودی کی پالیسی کیا ہوگی۔ پڑوسی ملک پاکستان کے تعلق سے ان کا رویہ کیا رخ اختیار کرے گا۔ عہدحاضر میں جہاں عالمی سطح پر دشمنوں کے مقابلے میں مسلمان سمندر کی جھاگ کی مانند ہوچکے ہیں۔ ہندوستان میں ان پر ایسی حکومت مسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے جو گجرات فسادات کے ذریعہ اپنے ناپاک منصوبوں کا آغاز کردیا ہے چنانچہ مسلمانوں اور سیکولر رائے دہندوں کو اپنی دستوری ذمہ داری کا احساس کرنا چاہئے۔ متحدہ طور پر سیکولرازم کو مضبوط کرنے کی سمت قدم اٹھانے چاہئے۔ نریندر مودی اپنی حب الوطنی کے جھوٹے پروپگنڈہ کے ذریعہ اگر ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کی حب الوطنی کو ابنائے وطن کے سامنے مشکوک بنانے کی کوشش کررہے ہیں تو مسلمانوں کے سامنے آنے والی ان سرکش آندھیوں کے مقابلے میں خود کو تیار کرنے سے پہلے ووٹ کا راست استعمال کرنا ضروری ہے۔ تمام سیکولر ذہن عوام کو یک ہوکر ملک کا مستقبل پہلے سے بھی زیادہ روشن اور محفوظ بنانے کی فکر کرنی چاہئے۔