بسا اوقات مسلمان ہونے کے ناطے ہر موڑ اور ہر میدان میں اسلام اور مسلمانوں کا غلبہ ہی مقصد حیات معلوم ہوتا ہے جب کبھی کوئی خبر ہندوستانی میڈیا پر گشت کرتی ہے نگاہیں کسی مسلمان پروفیسر ، مورخ ، قانون دان ، عالم دین ، سماجی جہدکار ، صحافی کو تلاش کرتی ہیں جو ہندوستانی عوام کے سامنے حق کی آواز کو بلند کرے اور اسلام کی نمائندگی اس طریقے پر کرے کہ ہندوستان کا ہر متوطن اس کو بسروچشم قبول کرلے اور وہ حق و باطل میں فرق کو محسوس کرتے ہوئے حق کی مدافعت میں شریک کار ہوجائے اور ہر بار سوائے حسرت و افسوس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں مسلمان بسنے کے باوجود اسلام کی نمائندگی کماحقہٗ پوری نہیں ہورہی ہے ۔
ہندوستان کے حالات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ، مذہبی منافرت بڑھتی جارہی ہے ، مسلمانوں سے متعلق نفرت و عداوت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ، ہندوتوا کو حکومتی سطح پر فروغ دیا جارہا ہے ، سیکولرازم اور جمہوریت کا تصور لرزہ براندام ہے ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے واقعہ نے ہندوستان کے سیکولر ذہن کو پھر ایک بار جھنجھوڑا ہے اور ان کو مذہبی جنون کے خلاف کھڑے ہونے کی رسمی دعوت دے رہا ہے ۔ روز بروز احتجاج میں شدت ہورہی ہے ، سیاسی قائدین کھل کر موافقت و مخالفت میں آگے آرہے ہیں ، میڈیا پر کہرام مچا ہوا ہے افسوس صد افسوس کہ اس سیناریو میں مسلم آواز سنائی نہیں دے رہی ہے، مسلمان چہرے نمائندگی میں نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ ہندوستانی سماج جو چند طلباء پر ملک کی غداری کے مقدمے پر آگ بگولہ نظر آرہا ہے لیکن جب کسی مسلم آبادی کو زندہ جلادیا جاتا ہے دن دھاڑے سرراہ قتل کیا جاتا ہے تو یہی ہندوستانی سماج اپنے سر پر کمبل اوڑے ، باہر کی دنیا سے بالکل بے بہرہ میٹھی نیند سوجاتا ہے ۔
ہمارے بچپن میں جب ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کرکٹ کا مقابلہ ہوتا تو ہمارے ایک قریبی عزیز کے گھر میں بھائی بہنوں میں ہمیشہ لڑائی ہوتی اس لئے اس گھر میں کوئی ہندوستان کی کامیابی کا طرفدار ہوتا تو کوئی پاکستان کی کامیابی کا خواہاں ہوتا ۔ اپنی اپنی پسندیدہ ٹیم کی شکست و کامیابی پر غم و خوشی کے فطری اثرات ہوتے جس کے نتیجہ میں بھائی بہنوں میں نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی اور ان خبروں سے سارے اہل خاندان محظوظ ہوتے لیکن اب ہندوستان کی صورتحال اس قدر نازک ہے کہ اگر کوئی پاکستان یا ہندوستان کے مقابل جو بھی ٹیم ہو اس کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کردے تو شاید اس کو ملک سے غداری کے مقدمہ کا سامنا ہوگا ۔
ہندوستان میں ایک طبقہ ہمیشہ اسلام سے متعلق زہرافشانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا اور جونہی موقعہ ہاتھ آئے ہندوستان میں مسلم دور حکمرانی کو ہدف تنقید بناتا ہے لیکن آج جس ماحول سے ہندوستان گزر رہا ہے وہ ناگفتہ بہ ہے ۔ بادشاہ جہانگیر تزک جہانگیری میں اپنے والد جلال الدین اکبر کے پرامن عہد کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہے اور جو تزک جہانگیری ص ۱۲کے اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وسیع و عریض حکومت میں تمام مذاہب و ادیان کے لوگ آپس میں صلح صفائی سے رہتے تھے ۔ برخلاف اس عمومی تاثر کے کہ شیعوں کے لئے ایران اور سنیوں کے لئے روم ہندوستان اور توران کے علاوہ رہنے کی کوئی جگہ نہیں ہے پس ممالک محروسہ کے تمام لوگ آپس میں شیر و شکر ہوکر رہتے تھے ۔ سنی اور شیعہ ایک ہی مسجد میں نماز پڑھتے تھے ۔ عیسائی اور یہودی ایک ہی کلیسا میں عبادت کرتے تھے ۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان محبت اخوت اور صلح جوئی کا رشتہ قائم تھا اور تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شفقت و محبت اور التفات ملحوظ رکھتے ۔
شیخ محمد اکرام اپنی تصنیف ’’رودکوثر ‘‘ میں فارسی اقتباس نقل کرنے کے بعد تحریر کرتے ہیں ’’صلح کل جس کی جہانگیر نے اتنی تعریف کی ہے اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نئی چیز نہ تھی ۔ جہاں تک مختلف مذاہب کے ساتھ رواداری اور سب طبقوں کو حکومت میں حصہ دینے کا تعلق ہے ۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم نے اس پر پوری طرح عمل کیا ۔ کشمیر میں سلطان زین العابدین کا عہد حکومت صلح کل کیلئے یادگار ہے‘‘ ۔ (رودکوثر ص ۸۶)
اورنگ زیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے غیرمسلموں سے منصفانہ سلوک نہ کیا اور مغلیہ سلطنت کی رواداری کی دیرانہ روایات کو ملحوظ نہ رکھا ۔ مولانا شبلی نے اس اعتراض کا تفصیل سے جواب دیا ہے۔ ولوبالفرض اگر اورنگ زیب عالمگیر یا کوئی دوسرا مسلمان جانبدارانہ سلوک کرے تو اس سے سارا مذہب اسلام مطعون و متھم تو نہیں ہوگا ۔ اسلام کے حسن و قبح کا اندازہ قرآن کریم و سنت مبارکہ سے ہی ہوسکتا ہے جو مذہبی رواداری کے معاملہ میں بہت واضح ہیں۔ ارشاد الٰہی ہے : اگر آپ کا رب چاہتا تو لوگوں کو ایک اُمت بنادیتا ۔ وہ ہمیشہ باہم مختلف رہیں گے مگر جن پر آپ کے رب کی رحمت ہوجائے (سورہ ھود ؍ ۱۱۸) دین میں کوئی جبر نہیں ، ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ( سورۃ البقرۃ ؍ ۲۵۶) آپ نصیحت کیجئے ، بلاشبہ آپ تو نصیحت کرنے والے ہی ہیں ، آپ ان پر مسلط نہیں ہیں ۔ ( سورۃ الغاشیہ ؍ ۲۱،۲۲) اور تم لوگ برا نہ کہو ان کو جن کی یہ اﷲ کے سوا پرستش کرتے ہیں پس وہ برا کہیں گے اﷲ کو بے ادبی سے ناسمجھی سے۔ اسی طرح ہم نے ہر ایک فرقہ کی نظر میں اس کے اعمال کو مزین کردیا ہے۔ پھر ان سب کو ان کے رب کے پاس پہنچنا ہے تب وہ آگاہ کرے گا ان کو جو وہ عمل کیا کرتے تھے ۔ ( سورۃ الانعام ؍ ۱۰۸) وہ کہتے ہیں جنت میں ہرگز کوئی داخل نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ وہ یہودی ہوگا یا نصرانی ۔ یہ سب ان کی اُمیدیں ہیں ، آپ فرمادیجئے تم دلیل پیش کرو ۔ اگر تم سچے ہو ۔( سورۃ البقرۃ ؍ ۱۱۱) نیکی اور برائی برابر نہیں ہوتی جب سب سے اچھا طریقہ ہو اس سے رد کیجئے ( سورۃ فصلت ؍ ۳۴) آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت سے دعوت دیجئے اور ان سے اس طریقہ سے جدال کیجئے جو سب سے اچھا ہو کیونکہ آپ کا رب زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا ہے اور کون ہدایت یافتہ ہیں ۔ ( النحل ؍ ۲۵)