حالات بگاڑنے کی سازشیں

ستایا ہے مجھے اپنوں نے اور اتنا ستایا ہے
کہ دشمن کو کہوں دشمن تو رُکتی ہے زباں میری
حالات بگاڑنے کی سازشیں
ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کے مطالبہ نے ہندوستان بھر میں اپنا اثر دکھایا تھا اور اس مسئلہ پر جو فرقہ پرستی عروج پائی ہے آج ساری دنیا کے سامنے ہے ۔ اسی مسئلہ پر ملک میں بے تحاشہ فسادات ہوئے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے اور سماج کے دو اہم طبقات کے مابین جو دوریاں اور خلیج پیدا ہوئی ایسا لگتا ہے کہ اس کو پاٹنا اب ممکن نہیں رہا ۔ حالانکہ کچھ عرصہ تک رام مندر کا مسئلہ برفدان کی نذر ہوکر رہ گیا تھا اور سابقہ یو پی اے حکومت کے دور اقتدار میں الہ آباد ہائیکورٹ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا تھا جس کی خواہش کسی بھی فریق نے نہیں کی تھی لیکن اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے اور اب سپریم کورٹ میں یہ مسئلہ زیر دوران ہے ۔ الہ آباد نے جو فیصلہ دیا تھا وہ شائد ہی کسی فریق کیلئے قابل قبول تھا اسی لئے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکا ہے ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ کو ہوا دیتے ہوئے ایک بار پھر فرقہ پرست طاقتیں ملک کے حالات کو بگاڑنا اور فرقہ وارنہ فضا کو درہم برہم کرنا چاہتی ہیں۔ نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ویسے تو فرقہ پرست تنظیموں اور اداروں نے اپنے عزائم کا کھلے عام اظہار کرنا شروع کردیا تھا ۔ کبھی گھرواپسی پروگرام کے ذریعہ حالات بگاڑے جا رہے ہیں تو پہلے لو جہاد کے نام پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی تھی ۔ کبھی مسلمانوں کو حق رائے دہی سے مرحوم کرنے کی بات کہی جا رہی ہے تو کبھی مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کے مشورے دئے جا رہے ہیں لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان سب کوششوں کے ناکام ہوجانے کے بعد رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ ایک بار پھر موضوع بحث بنایا جا رہا ہے ۔ کبھی بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نریندر مودی حکومت کو رام مندر کی تعمیر کیلئے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تو کبھی اتر پردیش کے گورنر یہ یقین ظاہر کرتے ہیں کہ رام مندر مسئلہ کو بہت جلد حل کرلیا جائیگا ۔ کبھی سادھو سنتوں کی جانب سے مندر مسئلہ کو اٹھایا جا رہا ہے تو کبھی وشوا ہندو پریشد‘ آر ایس ایس اور بجرنگ دل کی جانب سے یہ مطالبہ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر تعمیر کی جانی چاہئے ۔ سادھو سنتوں کی تنظیموںہوں یا سنگھ پریوار کی فرقہ پرست تنظیمیں ہوں اب اس مسئلہ پر حکومت کو دھمکیاں دینے پر اتر آئی ہیں اور ان کامطالبہ ہے کہ مندر بہر صورت تعمیر کیا جائے ۔
حالانکہ نریندر مودی حکومت نے اپنے اقتدار کے ایک سال کی تکمیل کے باوجود ابھی تک اس مسئلہ پر لب کشائی سے گریز کیا ہے لیکن بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب تک بی جے پی کو لوک سبھا میں مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوجاتی اس وقت تک رام مندر اور یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل کو نہیں حل کیا جاسکتا ۔ اس سے بی جے پی کی فرقہ پرست ذہنیت بھی ظاہر ہوجاتی ہے ۔حکومت حالانکہ اپنے طور پر اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے لیکن وہ اس طرح کے مطالبات کرنے والوں کو بھی خاموش کرنے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان تنظیموں کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے پہلے ملک میں ماحول کو بگاڑنے کی اجازت دے رہی ہے ۔ فرقہ پست تنظیمیںہوں یا سادھو سنت ہوں یا پھر بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ ہوں سبھی کو یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایودھیا کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوران ہے اور جب تک عدالت میں اس کا فیصلہ نہیں ہوجاتا اس وقت تک اس مسئلہ کو موضوع بحث بنانے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے ۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اس پر ہندوستان پہلے بھی خون کی ہولی کھیل چکا ہے ۔ اس پر بہت زیادہ فسادات ہوئے ہیں ‘ کئی زندگیاں تباہ ہوگئی ہیں اور کئی گھر اجڑ گئے ہیں۔ اس کے باوجود اگر اس مسئلہ کو ہوا دی جارہی ہے تو حکومت کا کام ہے کہ ایسی تنظیموںاور اداروں کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں ملک کی فرقہ وارانہ صورتحال کو بگاڑنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے ۔ حکومت کی خاموشی اور ان تنظیموںکے خلاف کسی طرح کی کارروائی سے گریز کے نتیجہ میں ان کے حوصلے بلند ہوجائیں گے اور وہ ملک کے حالات کو بگاڑنے میں کوئی کسرباقی نہیں رکھیں گی ۔
بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی تنازعہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور اس پر عدالت کے فیصلے کا انتظار کیا جانا چاہئے ۔ جہاں تک بات چیت کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی بات ہے تو بارہا ایسی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ایسی کوششوں کی کامیابی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اس کے علاوہ کسی ایک گروپ کو کسی بھی فرقہ کی جانب سے مصالحت یا مذاکرات کرنے کا مجاز بھی نہیں گردانا گیا ہے ایسے میں ایودھیا مسئلہ کا حل صرف عدالت کے ذریعہ ممکن ہے اور کسی طرح کی مصالحت قابل قبول نہیں کہی جاسکتی ۔ جب تک کوئی حل نہیں نکل جاتا اس وقت تک فریقین کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر وقفہ وقفہ سے یہ مسئلہ اٹھایا جاتا رہا تو اس کے اثرات سماج پر مرتب ہونے لازمی ہونگے اور ملک کی فضا اگر متاثر ہوتی ہے اور فرقہ وارانہ مسائل پیدا ہوتے ہیں تو اس کی ذمہ داری اس مسئلہ کو ہوا دینے اور اچھالنے والی تنظیموں کے ساتھ ساتھ حکومت پر بھی عائد ہوگی ۔
معمول سے کم مانسون کے اندیشے
جنوب مغربی مانسون بالآخر ساحل کیرالاسے ٹکرا گیا ہے ۔ اس کے اثر سے جنوبی ہند میں کچھ مقامات پر بارش بھی ہو رہی ہے تاہم مانسون کے شمالی ہند میں سرگرم ہونے کیلئے تقریبا ایک ماہ کا وقت درکار ہوگا ۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ جاریہ سال بھی مانسون معمول سے کم ہوگا اور بارش کی کمی کے نتیجہ میں ملک میں زرعی شعبہ پر منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔ حکومت نے تاہم فوری یہ کہنا ضروری سمجھا کہ ناکافی مانسون کی وجہ سے زیادہ مسائل نہیں ہونگے کیونکہ ملک میں غذائی اجناس کا وافر ذخیرہ موجود ہے اور یہ ذخیرہ ایک سال تک کیلئے کافی ہوسکتا ہے ۔ حکومت کے اس ادعا سے قطع نظر یہ ضرور ہے کہ ناکافی مانسون کے نتیجہ میں پہلے ہی سے مشکلات کا شکار زرعی شعبہ اور بھی متاثر ہوگا اور ملک کے طول و عرض میں کسانوں کے مسائل اور بھی بڑھ جائیں گے ۔ کسان پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں۔ غیر موسمی بارش کی وجہ سے ان کی فصلوں کو نقصان ہوا ہے ۔ قرض کے بوجھ سے الگ کسان پریشان ہیں اور اس صورتحال میں مہنگائی الگ بڑھتی جا رہی ہے ایسے میں اگر اس سال بھی مانسون معمول سے کم ہوتا ہے تو اس کے لازمی اثرات زرعی شعبہ پر پڑھیں گے اور بالآخر عوام کو اضافی بوجھ برداشت کرنے کیلئے تیار رہنا پڑیگا ۔ ہر صورت میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کا بوجھ عوام کی جیبوں ہی پر پڑھتا ہے اور حکومت محض زبانی جمع خرچ کرتے ہوئے بری الذمہ ہوجاتی ہے ۔ اب جبکہ قبل از وقت ہی یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں کہ مانسون ناکافی ہوسکتا ہے ایسے میں حکومت کو ایسے ہنگامی منصوبے تیار کرنے کی ضرورت ہے جن کے نتیجہ میں ناکافی مانسون کے اثرات کم سے کم ہوجائیں اور آئندہ وقتوں میں اس کی وجہ سے عوام پر اضافی بوجھ نہ عائد کیا جائے ۔ عوام کو اضافی بوجھ سے بچانے کیلئے حکومت کو اپنی جانبس ے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔