حافظ سعید سے ملاقات تنازعہ

اپوزیشن پارٹیاں جب پارلیمنٹ میں کوئی مسئلہ اُٹھاتی ہیں تو وہ بے مقصد نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید سے یوگا گرو بابا رام دیو کے ساتھی اور صحافی وید پرتاپ ویدک کی ملاقات کے مسئلہ پر ہنگامہ برپا کرتے ہوئے پارلیمانی کارروائی کو مسلسل دوسرے دن بھی درہم برہم کردیا گیا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اس مسئلہ پر حکومت سے جواب طلب کرتے ہوئے اصل اپوزیشن کانگریس نے اس ملاقات کو ’سنگین معاملہ‘ سے تعبیر کیا ہے۔ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ آیا حافظ سعید سے وید پرتاپ ویدک کی ملاقات کیلئے انتظامات میں ہندوستانی سفارت خانہ نے اہم رول ادا کیا تھا یا یہ کسی فرد واحد کی ملاقات تھی۔ وید پرتاپ نے اس ملاقات کو بطور صحافی پاکستان کے ایک شہری سے بات چیت کے سوا کچھ نہیں کہا ہے۔ میڈیا والوں کو ہر وقت کوئی نہ کوئی سیاسی واقعہ کی تلاش رہتی ہے، مگر اس مرتبہ ہندوستانی میڈیا نے سنگھ پریوار کے کسی رکن کی جانب سے ہونے والی ملاقاتوں اور مذاکرات کی خبروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی ہے۔

جب مسئلہ پارلیمنٹ تک پہنچا تو اس کو زیادہ سے زیادہ اُچھالنے کے لئے اپوزیشن کی کوشش جاری ہے۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے راجیہ سبھا کو یہ بتاتے ہوئے مطمئن کرانے کی کوشش کی کہ وید پرتاپ ویدک اور حافظ سعید کے درمیان ملاقات یا ان کے دورۂ پاکستان سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ فرد واحد کا ذاتی سفارتی اڈوینچر بھرا سفر و ملاقات ہے۔ بطور صحافی وید پرتاپ نے اگر حافظ سعید سے ملاقات کی ہے تو اس دورہ اور ملاقات سے قبل متعلقہ ہندوستانی سفارت خانہ کے عملہ کو اطلاع نہ ہونا بھی غیر فہم بات ہے۔ لوک سبھا میں بھی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپوزیشن کے احتجاج کو کم کرنے کے لئے جواب دیا کہ اس صحافی کی حافظ سعید سے ملاقات میں حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کیا اس ملاقات کو اس ملک کا فوری اہم مسئلہ متصور کیا جارہا ہے، جس پر بحث چھڑ گئی ہے۔ مرکز کی نریندر مودی حکومت کو آگے چل کر اپنی بیرونی سفارتی پالیسی کو واضح کرنا ہوگا۔ حکومت کسی نادان دوست کی نادانیوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے تو یہ پوشیدہ بات اپوزیشن بہرحال باہر نکال لے گی۔ فی الحال وید پرتاپ ویدک کی بحیثیت صحافی حافظ سعید جن پر 26/11 ممبئی دہشت گرد حملوں کے اصل سازشی ذہن ہونے کا الزام ہے، سے ملاقات پر سارا تماشہ برپا کرنے کے پیچھے سیاسی فوائد کا حصول ہے تو دونوں ملکوں کی خارجہ پالیسیوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہوں گی۔

اگر وید پرتاپ کے اس دورہ سے حکومت یا بی جے پی پارٹی کا کوئی تعلق نہیں ہے تو ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کے مصداق بابا رام دیو اور سنگھ پریوار کو پڑوسی ملک کی طاقتور تنظیموں اور شخصیتوں سے ملاقات کے لئے کوئی نمائندہ غیر سیاسی شخصیت کی ضرورت تھی۔ وید پرتاپ اس ضرورت کی تکمیل بن سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو پارٹی اور حکومت اس مسئلہ پر خاموش ہے یا اپنے جواب میں گھوما پھراکے اپوزیشن کو مطمئن کرانے کی کوشش کررہی ہے، اگر وید پرتاپ کی جگہ ہندوستان کے کسی مسلم صحافی نے حافظ سعید سے ملاقات کرلی ہوتی تو نریندر مودی حکومت اور سنگھ پریوار کے لوگوں کا کیا رویہ ہوتا؟ یہ قابل از قیاس ہے۔ بطور صحافی ماضی میں کئی اخباری نمائندوں نے دیگر شخصیتوں جیسے بن لادن، انڈر ورلڈ ڈان اور دیگر بدنام زمانہ افراد سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہندوستان میں ویرپن ہو یا ٹامل ناڈو و سری لنکا میں پربھاکرن، ہر ایک سے صحافیوں کی ملاقات کوئی نئی بات نہیں ہے، مگر نریندر مودی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد کسی خاص مکتب ِ فکر کے حامل شخص کی ملاقات عوام کے لئے غور طلب ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ حکومت عوام کے لئے بھی جوابدہ ہے۔ پارلیمنٹ میں اُٹھائے جانے والے مسئلہ پر اپوزیشن کے سامنے سچائی بیان کرنا حکومت کا فرض ہے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کرنے والی اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے اس احتجاج کی تائید میں کچھ ایسے ثبوت پیش کرکے آخر حافظ سعید سے وید پرتاپ کی ملاقات سے وہ کیا مطلب اخذ کررہی ہے

اور اس کے کیا نتائج برآمد کئے جاسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کو درہم برہم کرکے مسئلہ کے پیچھے حکومت کا ہاتھ ہونے کی سچائی کو آشکار کرنا ہی مقصد ہے تو حکومت کا کام ہے کہ وہ ازخود یہ ظاہر کردے گی۔ وید پرتاپ اور حافظ سعید کی ملاقات کا اصل معاملہ کیا ہے؟ کوئی بھی شہری ہندوستان سے دیگر ملک کو خاص کر پاکستان کا سفر کرتا ہے تو اس کے دورہ کے مقاصد اور وجوہات کی تفصیلات حاصل کی جاتی ہیں۔ وید پرتاپ ویدک چونکہ صحافی ہیں تو ان کے دورہ کے مقاصد سے بھی حکومت اور سفارتی عملہ واقف ہوگا۔ اپوزیشن کے مطابق اگر حکومت ویدک کو بچاکر حافظ سعید کا سچ چھپانا چاہتی ہے تو حافظ سعید سے لئے گئے انٹرویو کے متن سے عوام الناس کو واقف کرانا ایک صحافی کی دیانتداری کا حصہ ہوگی۔ اس انٹرویو کے مقاصد اور بات چیت کے اہم عنصر کیا ہیں؟ ملک کے عوام کو واقف کروایا جائے تو مودی حکومت اس الزام سے بچ سکتی ہے کہ وید پرتاپ ویدک کا یہ دورہ اور ملاقات حکومت کے قاصد کی حیثیت سے نہیں بلکہ یہ شخصی صحافتی دورہ تھا۔