اس دور میں ہر شئے ہے مفادات پہ مبنی
حد یہ ہے سیاست پہ بھی غالب ہے معیشت
جی 20 چوٹی کانفرنس
آسٹریلیا کے شہر برسبین میں دُنیا کی 20 طاقتور معیشتوں کے سربراہوں نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں اصلاحات کے لئے موثر اقدامات کرنے، معیشت میں ترقی لانے، ماحولیات کے تحفظ پر توجہ دینے کا عہد کیا۔ کانفرنس کے دوران وزیراعظم ہند نریندر مودی نے ہندوستان کی موثر نمائندگی کرتے ہوئے ٹیکس چوری کو روکنے کے لئے رکن ملکوں سے کالے دھن کے مسئلہ پر تعاون کی خواہش کی تو جی 20 کے شرکاء نے ان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کالے دھن یا ناجائز طریقہ سے دولت جمع کرنے کے عمل کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کا تیقن دیا۔ یہ چوٹی کانفرنس اپنے مقاصد کو انجام دہی کی سطح تک لے جانے کے عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ بلاشبہ اگر تمام بڑی معاشی طاقتوں نے اپنے عہد کی پابندی کی تو دنیا بھر میں روزگار کا مسئلہ ختم ہوجائے گا اور معیشت کو ایک استحکام ملے گا۔ آئندہ پانچ برس میں 2.1 فیصد ترقی کو یقینی بنانے کا ہدف اس وقت پورا ہوگا جب ہر ملک اپنے عہد کا احترام کرے۔ جی 20 چوٹی کانفرنس کے میزبان ملک آسٹریلیا نے بھی معاشی موضوعات کو ہی اہمیت دی ہے۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی تبدیلی، یوکرین میں جاری جنگ کو ختم کرنے پر بھی توجہ دی گئی مگر عالمی طاقتیں ، روس کو یوکرین کے حوالے سے اپنے مطالبات کی یکسوئی کے لئے صدر روس ولادیمیر پوٹین کو راضی نہیں کراسکے۔ پوٹین نے اس کانفرنس میں ان پر ہونے والی تنقیدوں کے درمیان اپنے وطن واپسی کو ترجیح دی تو ایک طرح سے عالمی طاقتوں کی یہ بڑی ناکامی ہے کیونکہ یوکرین مسئلہ پر صدر روس کو بین الاقوامی قوانین پر عمل کرنے کا پابند نہیں بنایا گیا۔ یوکرین میں علیحدگی پسندوں کو بھاری اسلحہ فراہم کرنے اور امن معاہدہ یا جنگ بندی کی خلاف ورزی جاری ہے۔ روس پر معاشی تحدیدات کے باوجود جی 20 چوٹی کانفرنس میں ولادیمیر پوٹین کو بین الاقوامی قوانین کی پابندی کرانے میں ناکامی ہوئی۔ صدر امریکہ براک اوباما نے روس کو اس کے حال پر چھوڑنے کو ترجیح دی۔ برسبین ایکشن پلان کے عنوان سے جاری کردہ اعلامیہ 3 صفحات پر مشتمل ایک ایسا دستاویز ہے جس میں عالمی ترقی ، مالیاتی اداروں کو مضبوط بنانے اور معاشی عدم توازن کو بہتر کرنے کے منصوبے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ منصوبے 800 اصلاحات کا ایک پیاکیج ہے۔ اگر اس پر دیانت داری سے عمل کیا گیا تو ترقی یقینی ہے۔ جی 20 گروپ کو عالمی حکمرانی کے آرکیٹیکچر میں ایک اہم عنصر مانا جاتا ہے۔ اس کی کوششیں اور اقدامات کو ترقی کا ضامن متصور کیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر معیشت کو ایک مضبوط سمت عطا کرنے کے منصوبہ اور اس پر عمل آوری ضروری ہے جس کو جی 20 نے اہم سمجھا ہے۔ ماحولیات کی تبدیلی نے ان بڑی معیشتوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ سے نمٹا نہیں گیا تو آنے والے دنوں میں ماحولیات میں حدت کے پیدا ہونے سے سونامی جیسے بھیانک واقعات کا پے در پے رونما ہونا غیرمتوقع نہیں ہوگا۔ جب یہ عالمی قائدین کانفرنس کے اختتام کے بعد اپنے ملک واپس ہوں گے تو ان کے عہد کی تکمیل کا عمل شروع ہوگا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر توقع کے مطابق نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اس گروپ میں امریکہ، برطانیہ ، یوروپی یونین، کینیڈا، چین اور جرمنی کے ساتھ ہندوستان بھی سرکردہ رول ادا کررہا ہے لیکن جی 20 چوٹی کانفرنس نے معاشی ترقی کے لئے جن اقدامات کا ذکر کیا ہے، وہ اس بحران کو دور کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ یہ مایوس کن کوشش ہے۔ جی 20 ملکوں کے لئے ٹیکس مالیہ میں اضافہ کے مقاصد پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ معاشی ابتری کو دُور کرنے کے لئے جب تک مضبوط کوشش نہیں کی جاتی، اس کے نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔ اس تعلق سے نکتہ توجہ طلب ہے کہ جن ملکوں نے پیداوار میں اضافہ اور ماحولیات کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کا عہد کیا ہے، وہ یوکرین کے ایک چھوٹے مسئلہ کو حل نہیں کراسکے تو ان کے دیگر بلند بانگ منصوبے کس طرح کامیاب ہوں گے۔ ایشیا میں اس وقت سب سے زیادہ مسئلہ سکیورٹی کا ہے۔ تمام ملکوں کو باہمی سکیورٹی کے لئے بین الاقوامی قوانین اور اُصولوں کو سختی سے روبہ عمل لانا ہوگا ، مگر یہاں بڑی طاقتوں اور چھوٹی معیشتوں کے درمیان فرق پیدا کرتے ہوئے یکطرفہ کارروائی کی جائے تو سکیورٹی خطرات برقرار رہیں گے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ان بڑے ملکوں کے درمیان اپنی بات رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مغربی قائدین نے انہیں روس کے صدر پوٹین سے دُور رکھنے اور کوئلہ ذخیرہ کو ختم کرتے ہوئے ماحولیات کی تبدیلی کے مسئلہ سے نمٹنے کی حد تک صف میں اہمیت دی ہے۔