ہر سال یہی کہتے ہیں گلشن کے نگہباں
امسال نہیں فصلیں بہار اب کے برس ہے
جی ایس ٹی کا ایک سال
ملک میں جی ایس ٹی کے نفاذ کو ایک سال پورا ہوگیا ہے ۔ اس ایک سال میں جی ایس ٹی کے تعلق سے ملے جلے تاثرات سامنے آئے ہیں۔ کچھ شعبہ جات آج بھی ایسے ہیں جو اس ٹیکس کی وجہ سے دباو اور بوجھ محسوس کر رہے ہیں تو کچھ شعبہ جات میںاس ٹیکس کی وجہ سے دباو میںکمی واقع ہوئی ہے ۔ عام آدمی اس ٹیکس کے تعلق سے اب تک بھی الجھن کا شکار ہے اور اسے آج بھی اس ٹیکس اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات سمجھ میں نہیں آسکے ہیں۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے وہ تو اس ٹیکس کو ہر مرض کی دوا قرار دینے میںمصروف ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ آئندہ سال ملک میںعام انتخابات ہونے والے ہیںحکومت اس ٹیکس کے تعلق سے منفی تاثرات پیش کرنے کی متحمل نہیںہوسکتی ۔ اس کے علاوہ ابتداء ہی سے حکومت اس ٹیکس کے مثبت اثرات ہی کو پیش کرتی آرہی ہے جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اس ٹیکس کے کچھ شعبہ جات پر منفی اثرات ضرور مرتب ہوئے ہیں۔اس ٹیکس کے نفاذ کے تعلق سے مختلف گوشوں سے مختلف رائے کا اظہار بھی کیا گیا ہے ۔ خود ماہرین اس تعلق سے دو گروپس میں بٹے ہوئے ہیں ۔ ایک طبقہ اس کی حمایت میں ڈٹا ہوا ہے تو دوسرا اس کے مضمرات کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں مصروف ہے ۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو جی ایس ٹی کا حامی تو ضرور ہے لیکن وہ چاہتا ہے کہ اس کے نفاذ کے طریقہ کار میں آسانیاںپیدا کی جائیںاور اس میں محاصل کا جوسلاب ہے اس میں تبدیلیاں کی جائیں۔ حکومت نے جی ایس ٹی کے تحت ٹیکس عائد کرنے کے جوسلاب تیار کئے ہیں وہ خوداس ٹیکس کے نفاذ کے بنیادی نعرہ کے خلاف ہیں۔ حکومت کا نعرہ تھا کہ ایک ملک میں ایک ٹیکس ہونا چاہئے ۔ لیکن ایسا نہیںہو رہا ہے ۔ مرکز کی جانب سے الگ ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے ۔ ریاستیں الگ سے اپنا ٹیکس عائد کر رہی ہیں۔ الگ الگ اشیا کو الگ الگ زمروں میں رکھا گیا ہے ۔ ہر زمرہ میں مختلف اشیا کو شامل کیا گیا ہے ۔ سروسیس کو بھی مختلف زمروں میں بانٹا گیا ہے اور اسی بات پر اختلاف رائے دیکھا جا رہا ہے ۔ اس ساری صورتحال نے ملک کے عوام کو الجھن میں ڈال رکھا ہے ۔ وہ ابھی تک اس کو سمجھ نہیں پائے ہیں۔
کچھ اشیا ایسی ہیں جن کو حکومت کے مخالفین بھی جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لانے کی وکالت کر رہے ہیں تو حکومت مسلسل ان مطالبات سے صرف نظر کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر رہی ہے ۔ سب سے اولین مطالبہ پٹرول اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لانے کا ہے ۔ جس طرح سے حالیہ عرصہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا گیا ہے اور عام آدمی کی جیبوں پربوجھ عائد ہوا ہے اس کے بعد یہ مطالبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ پٹرول اور ڈیزل کو جی ایس ٹی کے دائرہ میں لانا چاہئے ۔ اگر حکومت ایسا کرنے سے متفق ہوجاتی ہے تو عام تاثر یہی ہے کہ اس سے عوام کی جیبوںکو کچھ راحت نصیب ہوگی کیونکہ ٹیکس کا ایک سلاب عائد ہوجائیگا اور تیل کمپنیاںمختلف بہانوں کے ذریعہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں من مانی انداز میںاضافہ کرنے میںکامیاب نہیں ہونگی ۔ حکومت کو اس بات کا پورا احساس ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت تیل قیمتوں کو سیاسی انداز میں بھی استعمال کر رہی ہے ۔ اگر ان قیمتوں کو بھی جی ایس ٹی کے دائرہ کار میں لایا جاتا ہے تو حکومتوں کو ان پر انتخابی سیاست کرنے کا بھی موقع نہیں مل سکے گا ۔ ہمارے سامنے مثال موجود ہے کہ جب کبھی ملک میں کہیںانتخابات ہوتے ہیں تیل کمپنیاں حکومت کے اشاروں پر تیل کی قیمتوں میںاضافہ روک دیتی ہے اور انتخابات کی تکمیل کے فوری بعد پھر سے اضافہ کا سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے ۔
اب جبکہ جی ایس ٹی کے نفاذ کا ایک سوال پورا ہوا ہے حکومت اس پر اب بھی کوئی واضح جواب ملک کے عوام کے سامنے پیش کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ جی ایس ٹی کے نفاذ پر جن تاجرین کو مشکلات پیش آنی شروع ہوئی ہیں ان کا بھی اب تک مداوا نہیںہوسکاہے ۔ اس کے منفی اثرات کو اب تک دور کرنے میں حکومت کو کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ حکومت حالانکہ اب مالیہ وصولی کی شرح میںاضافہ کا دعوی کر رہی ہے لیکن بحیثیت مجموعی معاشی ترقی کی رفتار اور شرح کے تعلق سے بھی صورتال کوئی حوصلہ افزا نہیں کہی جاسکتی ۔ حکومت کو اس تعلق سے ایک جامع اور واضح پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام میں اب تک جو الجھن برقرار ہے اس کو دور کرتے ہوئے ملک کی معیشت کیلئے سازگار ماحول تیار کرنا چاہئے ۔