جیل شکنی و فرار کا مقدمہ، مُرسی کی عدالت میں حاضری

قاہرہ 28 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) مصر کے معزول صدر محمد مرسی کو 2011 ء کے دوران جیل توڑ کر فرار ہونے کے ایک مقدمہ کی سماعت کے لئے آج عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اُنھوں نے بدستور باغیانہ تیور اختیار کئے اور اصرار کیاکہ وہ ہنوز اِس ملک کے جائز صدر ہیں۔ مُرسی کو اُن کی غلط حکمرانی کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے نتیجہ میں 3 جولائی کو اقتدار سے معزول کئے جانے کے بعد پولیس اکیڈیمی میں ان کے خلاف مقدمہ کی آج دوسری سماعت تھی۔

تاہم آج مقدمہ کی سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی گئی۔ 62 سالہ مُرسی کے خلاف 2012 ء میں صدارتی محل کے باہر احتجاجیوں کے قتل پر اُکسانے سے متعلق علحدہ مقدمات بھی درج ہیں۔ علاوہ ازیں اُن کے خلاف حماس اور حزب اللہ جیسے بیرونی دہشت گرد گروپوں کی حوصلہ افزائی کی سازش میں ملوث ہونے اور عدلیہ کی توہین کرنے کے الزامات کے تحت مقدمات زیردوراں ہیں۔ اگر کسی ایک مقدمہ میں بھی وہ جرم کے مرتکب پائے جاتے ہیں تو اُنھیں سزائے موت ہوسکتی ہے۔ مقدمہ کے آغاز کے ساتھ ہی مُرسی نے چیخ پکار شروع کردی اور کہاکہ ’’میں اِس جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے کس طرح کئی ہفتوں تک اندر ڈال ڈالا جاسکتا ہے‘‘۔

مُرسی نے جج پر چلاّتے ہوئے کہاکہ ’’آپ کون ہیں؟‘‘ جس پر جج نے صرف یہ کہاکہ ’’میں اِس فوجداری عدالت کا سربراہ ہوں‘‘۔ مُرسی اور اُن کے دیگر 11 اسلام پسند رفقاء کے خلاف اِن الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں جنھیں سماعت کے دوران پیچھے کے ایک ایسے انکلوژر میں رکھا گیا تھا جہاں آواز نہیں پہونچ سکتی تھی۔ یہ اِس لئے کیا گیا کیونکہ اِن ملزمین نے گزشتہ سال عدالت میں اپنی پہلی پیشی کے دوران بار بار شوروغل اور ہنگامہ آرائی کی تھی۔ ماباقی ملزمین میں تقریباً 70 فلسطینی بھی شامل ہیں، جو مفرور بتائے گئے ہیں اور اُن کے خلاف غیاب میں مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ معزول صدر نے عدالت سے کہاکہ وہ کوئی قیدی نہیں ہیں بلکہ سیاسی قیدی ہیں، اِس کے باوجود اُنھیں کل 7 بجے شام عدالت کے قریب لایا گیا۔ مُرسی نے کہاکہ ’’مُرسی نے عدالت سے کہاکہ میں اِس ملک کا ایک جائز صدر ہوں، یہ مقدمہ قانونی نہیں ہے‘‘۔

اِس موقع پر دیگر قیدی بھی فوجی حکومت کے خلاف نعرے لگارہے تھے۔ ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ محمد مُرسی قیدیوں کے لئے مخصوص سفید لباس میں ملبوس تھے اور عدالت کے چوتھے گوشے میں بیٹھے پریشانی کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ اُن کے ساتھ موجود اسلام پسند مدعیان جج کے خلاف نعرے لگارہے تھے اور اُنھیں قانونی جج تسلیم کرنے سے انکار کررہے تھے۔ ایک حیرت انگیز اقدام کے طور پر مُرسی نے اسلامی مفکر محمد سلیم الاعویٰ کو اپنا دفاعی وکیل نامزد کیا ہے جو اِس مقدمہ میں اُن کی پیروی کریں گے۔ مُرسی کو فی الحال تین اہم مقدمات کا سامنا ہے۔ تشدد کے لئے اُکسانے کے ایک الگ مقدمہ میں مُرسی نے وکیل کی خدمات حاصل کرنے سے مسلسل انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ عدالت کی اتھاریٹی کو تسلیم نہیں کرتے۔

مقدمہ کی سماعت آج ہوئی جس سے ایک دن قبل فوج کے سربراہ عبدالفتح السیسی کو فیلڈ مارشل کے عہدہ پر ترقی دی گئی تھی، سیسی نے مُرسی کو معزول کیا تھا۔ فوج نے اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں سیسی کی تائید کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سلیم الاعویٰ 2012 ء کے صدارتی انتخابات میں مُرسی کے خلاف امیدوار تھے لیکن وہ حسنی مبارک کے آمرانہ دور حکومت میں بھی اخوان المسلمین کے کئی ملزمین کی وکالت کرچکے ہیں۔ اُنھوں نے تاہم اخوان المسلمین سے کسی وابستگی کی تردید کی ہے۔ سلیم الاعویٰ اخوان المسلمین کی ایک حلیف اعتدال پسند جماعت وسط کے قانونی مشیر بھی ہیں۔ مقدمہ کی سماعت کا قبل ازیں کئے گئے اعلان کے باوجود لائیو ٹیلی کاسٹ نہیں کیا گیا۔ تاہم چند گھنٹوں کے بعد اقتباسات دکھائے گئے۔ اِس مقدمہ کی سماعت آج اتفاق سے اُس روز منعقد ہوئی جس سے تین سال قبل 2011 ء میں اپنے وقت کے مرد آہن حسنی مبارک کے خلاف عوامی احتجاج برپا کیا گیا تھا اور 18 روزہ عوامی مظاہروں کے نتیجہ میں اُنھیں اقتدار سے سبکدوش ہونا پڑا تھا۔

قاہرہ میں پولیس سربراہ کو گولی ماردی گئی
قاہرہ ۔ 28 ۔ جنوری (سیاست ڈاٹ کام) مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بائیک پر سوار بندوق برداروں نے پولیس سربراہ کو ہلاک کردیا جو وزارت داخلہ کے قریبی مددگار بھی تھے۔ یہ واقعہ دن کے وقت پیش آیا۔بتایا جاتا ہے کہ پولیس جنرل محمد سعید اپنے گھر سے جارہے تھے کہ بندوق برداروں نے جو بائیک پر سوار تھے ان پر فائرنگ کردی۔ گولیاں ان کے سر اور سینے میں لگی جس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے اور حملہ آوروں نے راہ فرار اختیار کی۔