جیسے کو تیسا

جو شخص جیسا کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی ہوتا ہے۔ اس کو جیسی کرنی ویسی بھرنی بھی کہتے ہیں۔ اس کہاوت سے متعلق ایک حکایت ہے۔ ایک راجا کا ہاتھی پانی پینے کیلئے روزانہ صبح تالاب پر لے جایا جاتا تھا۔
راستہ میں ایک درزی کی دکان پڑتی تھی۔ ہاتھی روزانہ اس کی دکان میں اپنی سونڈ بڑھا دیتا اور درزی اسے کیلا یا کھانے کی کوئی اور چیز دے دیتا تھا۔ یہ دوستی کچھ دن ایسے ہی چلتی رہی۔ایک دن درزی کے بجائے اس کا لڑکا دکان پر بیٹھا تھا۔ ہاتھی نے ہمیشہ کی طرح جب دکان میں سونڈ بڑھایا تو لڑکے نے شرارت سے کیلا دینے کے بجائے اس میں سوئی چبھودی۔ ہاتھی تالاب سے لوٹا تو اپنی سونڈ میں بہت سا پانی بھر لایا اور دکان میں سونڈ ڈال کردرزی کے لڑکے پر زور سے دھار مار کر اسے شرابور کردیا۔ اس طرح جیسا اس لڑکے نے کیا تھا ویسا ہی اس کے ساتھ ہوا۔

انگور کھٹے ہیں
ایک لومڑی نے انگور کی بیل پر انگور دیکھے تو ان کو کھانے کے لالچ میں اس نے چاہا کہ کسی طرح ان تک پہنچ جائے۔ بہت کودی اور اچھلی لیکن انگوروں تک نہیں پہنچ سکی۔ جب ہر طرح سے کوشش کرکے ہار گئی تو کھسیانی ہوکر بولی ’’اونھ ! یہ انگور تو یوں بھی کھٹے ہیں۔ ان کو کیا کھاؤں‘‘۔چنانچہ اگر کوئی چیز کسی شخص کوہزار کوشش کے باوجود بھی نہیں مل سکے اور وہ اپنے نفس کی تسکین کے لئے کوئی فرضی برائی ڈھونڈ لے تو اس کہاوت کا استعمال کیا جاتا ہے۔