جیتنے کا یقین، میڈیا، ایف بی آئی اور روسی مداخلت شکست کی وجوہات

سابق امریکی وزیرخارجہ و صدارتی امیدوار ہلاری کلنٹن کا انٹرویو، ٹرمپ کے ساتھی بھی شکست کے ذمہ دار

واشنگٹن ۔ یکم ؍ جون (سیاست ڈاٹ کام) سابق امریکی وزیرخارجہ اور خاتون اول ہلاری کلنٹن  جنہیں گذشتہ سال نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات میں غیرمتوقع شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، انہوں نے ایک ٹیکنالوجی کانفرنس میں ایک طویل انٹرویو کے دوران جو کیلیفورنیا میں منعقد کیا گیا تھا، اپنی شکست کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں روسی مداخلت، خود ان کی پارٹی،ایف بی آئی، میڈیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ انہیں غیرضروری طور پر یہ زعم ہوگیا تھا کہ وہ انتخابات جیتنے والی ہیں۔ ری پبلکن ڈونالڈ ٹرمپ سے شکست کھانے والی ہلاری کلنٹن نے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے تمام تفصیلات بتائیں حالانکہ شکست کے فوری بعد وہ کافی دنوں تک میڈیا کے  سامنے نہیں آئی تھیں کیونکہ انہیں ایک ’’احساس ندامت ‘‘ تھا کہ عوام ان سے شکست کی وجہ پوچھیں گے اور ان کے (ہلاری) پاس عوام کو مطمئن کرنے کے قابل کوئی جوابات نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی مہمات کے دوران جتنے بھی اہم فیصلے ہوئے وہ خود انہوں نے کئے کوئی اور اس کا ذمہ دار نہیں لیکن یہ فیصلے خود کرنا بھی ان کی شکست کی وجہ نہیں۔ انہوں نے بالآخر یہ انکشاف کر ہی دیا کہ صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح غلط معلومات اور فرضی خبروں کی وجہ سے بھی انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے قریبی رفقاء کے ملوث ہونے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ روسیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ بھی امریکی شہری ہی تھے اور اگر انہوں نے ایسا کیا ہے تو اس سے ایک بات واضح ہوجاتی ہیکہ ان کی پولنگ اور ڈیٹا انفارمیشن تک اچھی خاصی رسائی تھی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آخر وہ کون لوگ ہوسکتے ہیں تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کیمپین کے عہدیدار اور ٹرمپ کے دیگر قریبی رفقاء کے روسیوں سے روابط سے متعلق ہمیں تمام اطلاعات موصول ہورہی ہیں اور امید ہیکہ کچھ ہی دنوں میں مکمل معلومات حاصل ہوجانے کے بعد میں اس سوال کا جواب زیادہ وضاحت سے دے سکوں گی۔ 69 سالہ ہلاری کلنٹن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ری پبلکن نے ووٹرس تک رسائی کیلئے جس ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کا استعمال کیا، وہ ہم (ڈیموکریٹس) نہیں کرسکے۔ انہوں نے ان کے خانگی ای۔ میل معاملہ کو بھی میڈیا کے ذریعہ غیرضروری اچھالنے پر شکایتی انداز اپناتے ہوئے کہا کہ میڈیا نے رائی کا پہاڑ بناتے ہوئے خانگی ای میل تنازعہ کو ’’پرل ہاربر‘‘ کی طرح پیش کیا۔ یاد رہیکہ گذشتہ سال 8 نومبر کو منعقدہ صدارتی انتخابات میں ہلاری کلنٹن امریکہ کی بڑی سیاسی پارٹی کی پہلی خاتون امیدوار تھیں اور انہیں ممکنہ طور پر امریکہ کی آئندہ پہلی  خاتون صدر کے طور پر پیش کیا جارہا تھا۔ لہٰذا جب توقعات اور بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو کوئی بھی اوور کانفیڈنٹ ہوجاتا ہے اور شاید کلنٹن کو بھی یہی جذبہ لے ڈوبا۔ انہوں نے اس موقع پر ایف بی آئی کے سابق ڈائرکٹر جیمس کومی کا بھی تذکرہ کیا جنہیں حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے برطرف کردیا تھا، کہ کس طرح انہوں نے رائے دہی سے صرف ایک ہفتہ قبل خانگی ای میل معاملہ کی دوبارہ تحقیقات کا اعلان کیا تھا لیکن کومی کو جس طرح میرے خانگی ای میل اکاؤنٹ اور سرور کے بارے میں بات کرتے ہوئے کافی خوشی ہوتی ہے وہیں دوسری طرف روسیوں کی تحقیقات کے بارے میں وہ لب کشائی نہیں کرتے لہٰذا رائے دہندے 8 نومبر کو تذبذب میں مبتلا تھے جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ٹرمپ کیمپین کے خلاف بھی تحقیقات کی جارہی تھی لیکن عوام اس سے بے خبر تھے کیونکہ اس کی تشہیر نہیں کی گئی تھی۔