اسلام ایک پاکیزہ اور جامع مذہب ہے، اس کے اصول و قواعد، ضوابط و قوانین مرتب و مدون ہیں۔ اسلامی تعلیمات روز روشن کی طرح عیاں و بیاں ہیں۔ یہ ایک کھلی کتاب ہے، جس کا ایک ایک ورق اور ایک ایک صفحہ جلی حروف میں مکتوب ہے، جس میں نہ کوئی ابہام ہے اور نہ ہی کوئی پوشیدگی۔ ہر دور میں اسلام کی روشنی کو مدھم کرنے کے لئے اعتراضات کے کہر کی پے در پے چادریں بچھائی جاتی ہیں، لیکن خورشید اسلام کی تیز روشنی کے سامنے ابر و کہر کا رقیق و عارضی پردہ برف ک طرح پگھل کر بہہ جاتا ہے۔
آفتاب آمد دلیل آفتاب کے بمصداق اسلام کی کھلی تعلیمات ہی دشمن طاقتوں کے ہر سیاہ و سفید خشک و تر اعتراض کا دنداں شکن جواب ہے۔ زمانہ دراز سے غیر مذہبی شادیوں کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ مذہب بیزار، مذہب سے دور وسعت نظری کے معکوس پہلو پر یقین رکھنے والوں کے نزدیک مذہب ایک شخصی، انفرادی اور معنوی معاملہ ہے، جس کا تعلق قلب و روح سے ہے، معاشرت و تمدن سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اس نظریہ کے حامل افراد کی قابل لحاظ تعداد ہر مذہب و ملت میں موجود ہے۔ کئی مسلم مرد و خواتین غیر مسلم مرد و خواتین کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر رہنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ظاہری ازدواجی زندگی کے بدھن میں بندھے ہوئے ہیں اور کامیاب و خوشگوار ازدواجی زندگی کے دعویدار ہیں۔
یورپ و امریکہ میں خواتین کی قابل لحاظ تعداد ہر سال اپنے آبائی مذہب و دین کو چھوڑکر اسلام قبول کر رہی ہے اور مسلمانوں کے حبالۂ عقد میں آرہی ہیں۔ کئی انگریز خواتین مسلم شوہروں کے ساتھ کامیاب و پائدار زندگی بسر کر رہی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملکی قوانین اور ویزوں کی حصولیابی کے لئے شادیاں کرنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں ہے، لیکن مجموعی طورپر ہزارہا خواتین مسلمانوں سے عقد نکاح کر رہی ہیں۔ چوں کہ اسلام میں زنا کی شدید مذمت ہے، اس کا مرتکب فاسق و فاجر اور اسلامی ملک ہو تو حد شرعی کا مستحق ہے، اس لئے بالعموم شوہر کی بے وفائی اور بدچلنی کے واقعات مسلم قوم میں کم ہوتے ہیں۔ مزید برآں بیوی کا نفقہ، رہائش، کپڑے، بنیادی حوائج کی تکمیل ازروئے شرع مسلم شوہر پر عائد ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایثار و قربانی اور بے لوث محبت، یہ ایسی نعمتیں ہیں، جو انگریز عورتوں کے لئے ایک خواب ہے۔ ہندوتان میں بھی مذہب سے دوری اور مادہ پرستی کے رجحان کے فروغ پانے کے سبب کئی غیر مذہبی شادیوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جب کہ یہ رجحان دشمنان اسلام کو ایک آنکھ نہیں بھاسکتا۔ انھوں نے نہایت مکاری سے اسلام کو متہم کرنے اور اپنی لڑکیوں کو اسلام سے دور رکھنے کے لئے ’’لَوجہاد‘‘ کی اختراع کی۔ یہ کوئی اسلامی اصطلاح نہیں، بلکہ دشمنان دین کی خود ساختہ ایجاد ہے اور جو شادیاں ناکام ہو رہی ہیں، ان کو ڈھال بناکر دروغ گوئی اور بہتان تراشی کا سہارا لیتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے ’’لوجہاد‘‘ کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں اور وہ ہر بار کی طرح اس پروپیگنڈے کی تشہیر و ترویج میں بظاہر کامیاب ہوئے ہیں۔ سارے عالمی میڈیا میں اس گو شہ سرخیوں میں جگہ دی گئی اور اب ہندوستان میں یہ حساس مسئلہ فرقہ پرستوں کی باطل سیاست کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ بڑے بڑے فسادات صرف اس جھوٹے خود وضع کردہ ’’لوجہاد‘‘ کے نام پر ہوئے ہیں۔ سیکڑوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلادیا گیا، بستیاں اجاڑ دی گئیں، عصمتیں لوٹی گئیں، معیشت کو تباہ و برباد کیا گیا اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی غیر مسلم لڑکی، کسی مسلمان شخص سے محبت کرے اور اسلام قبول کرکے شادی کرلے اور بعد ازاں دونوں میں موافقت و نباہ نہ ہو اور اختلافات کا شکار ہو جائیں تو ایسے واقعات کو ہوا دے کر محبت کے نام پر تبدیلی مذہب پر مجبور کرنے سے متعلق ایک قانون پاس کیا جائے گا اور اس میں مسلم نوجوانوں کو عمداً شکار بنایا جائے گا۔ ٹاڈا، پوٹا اور دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت مسلمانوں کی گرفتاری اور اذیتوں سے ان کے دل ٹھنڈے نہیں ہوئے اور اب اس قسم کے پروپیگنڈے کرکے نہ جانے کتنے بے قصور مسلمانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کا ارادہ ہوگا۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں اسلام کی تبلیغ، اس کی حقیقی تعلیمات کو مخاطب کے ذہن کے مطابق سلیقہ سے پیش کرنے کا حکم ہے، تبدیلی مذہب کے لئے مجبور کرنے یا زبردستی کا کہیں ذکر و اشارہ نہیں اور نہ ہی یہ مطلوب و مقصود ہے۔ ’’لوجہاد‘‘ کا نظریہ نہ صرف غیر اسلامی ہے، بلکہ غیر مہذبانہ ہے۔ ایسے غیر مہذب و ناشائسہ نظریہ فکر کی اسلام جیسے عالی مذہب میں کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی، یہ اسلامی غیرت و حمیت کے خلاف ہے۔ اسلام ایک خوددار و غیرت مند مذہب ہے۔ اسلام بذات خود مقناطیسی جاذبیت رکھتا ہے، اس کو اپنے قریب کرنے کے لئے بزدلانہ اور ناشائسہ نظریات کو فروغ دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔
فرقہ پرست طاقتیں اپنے دین کی کھوکھلی بنیادوں کی وجہ سے حیران و پریشان ہیں اور اپنی حقیقی و اصلی خامی کا اعتراف کرنے کی بجائے اسلام سے روکنے اور مسلمانوں سے بدظنی پیدا کرنے کے لئے ’’لوجہاد‘‘ کی تشہیر کر رہی ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو اسلام کے خلاف برانگیختہ کرنے کے لئے نت نئے نعرے دے رہی ہیں۔ جب کہ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ شے شرک ہے اور وہ ایک نجاست و ناپاکی ہے۔ اس کا حامل و حامی بھی قلبی ناپاکی اور معنوی نجاست کا حامل ہے۔ مشرک عورتوں سے نکاح کرنا نص قطعی سے حرام ہے اور جو مسلمان مشرک عورتوں سے نکاح کرکے ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں، ان کا نکاح ہی منعقد نہیں ہوا۔ وہ از روئے شرع حرام زندگی گزار رہے ہیں، زنا کر رہے ہیں اور جو اس کو حلال سمجھتے ہیں، وہ اسلام سے خارج ہیں، لہذا ایسے نام نہاد مسلمانوں کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسلام میں پاک دامن اہل کتاب عیسائی و یہودی عورتوں سے نکاح کی اگرچہ اجازت ہے، لیکن ان کے نکاح کو فقہائے امت نے ہر دور میں ناپسند کیا ہے، حتی کہ خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ کو، جنھوں نے ایک یہودی عورت سے نکاح کیا تھا، مصلحت دینی کی بناء طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ (الفقہ الاسلامی وادلۃ، جلد سوم، صفحہ ۱۵۷)
آج بھی یہ کراہت برقرار ہے، پس ’’لوجہاد‘‘ کا نظریہ غیر اسلامی اور خفیف نظریہ ہے، جس کی اسلام جیسے عالی مذہب میں کہیں کوئی گنجائش نہیں ہے۔