واشنگٹن ، 7 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر براک اوباما نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خفیہ خط میں کہا ہے کہ اگر تہران کے متنازعہ پروگرام پر معاملت طے پا جاتی ہے تو اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مشترکہ کارروائی پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعرات کو سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی صدر نے گزشتہ ماہ ایرانی سپریم لیڈر کو ایک خفیہ خط ارسال کیا تھا، جس میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ممکنہ مشترکہ کارروائی کا تذکرہ تھا۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ایرانی مذہبی رہنما کو ارسال کردہ خط کے بارے میں صدر اوباما نے اپنے قریبی ساتھیوں کو اعتماد میں بھی لیا تھا۔ اس خط میں اوباما نے ان جہادیوں کے خلاف کارروائی کو ایران اور امریکہ کی ایک ’مشترکہ جنگ‘ قرار دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ ایران میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر طالب علموں اور کٹر نظریات کے حامل دیگر افراد کے 444 دنوں کے محاصرے کے بعد واشنگٹن نے ایران سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کر دیئے تھے۔ اگرچہ امریکی حکومت ایران پر الزام عائد کرتی ہے کہ یہ شیعہ اسلامی ملک دہشت گردوں کی معاونت کرتا ہے
تاہم واشنگٹن میں اس کے باوجود ایسے خیالات پائے جاتے ہیں کہ شام اور عراق میں فعال اسلامک اسٹیٹ اور دیگر سنی شدت پسند گروہوں کے خلاف جاری عالمی کارروائی میں ایک اہم فریق ثابت ہوتے ہوئے قیام امن میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے اوباما کی طرف سے خامنہ ای کو ارسال کئے گئے خط کے بارے میں تبصرہ کرنے پر انکار کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا، ’’میں اس پوزیشن میں نہیں کہ صدر اوباما اور کسی دوسرے ملک کے کسی رہنما کے مابین ہونے والی نجی رابطہ کاری پر کوئی بیان دوں۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ ایران اور امریکہ تہران کے متنازعہ پروگرام کے بارے میں کوئی حتمی معاملت کیلئے مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایرنسٹ کو بقول ایرانی جوہری مذاکرات کاروں اور عالمی برادری کے نمائندوں کے مابین ہونے والے تازہ مذاکرات کے موقع پر اسلامی شدت پسندی کے حوالے کے موضوع پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔