جو امیدوار پیسہ دے گا وہ آپ کا سودا کرے گا

٭ جذبہ عوامی خدمت سے سرشار امیدواروں کا انتخاب معاشرہ کے حق میں بہتر
٭ کیا آپ اپنی زندگی کے پانچ سال 500/- روپئے میں (یعنی روزانہ 25 پیسے کیلئے) فروخت کردیں گے؟؟

حیدرآباد 26 اپریل ۔ ہندوستان میں انتخابی عمل وقت کے ساتھ ساتھ بڑا مہنگا ثابت ہورہا ہے جس کے پاس دولت اور طاقت ہو اسے ہی کامیابی مل رہی ہے چنانچہ موجودہ عام انتخابات میں بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے امیدواروں کیلئے انتخابی مصارف کی حد مقرر کئے جانے کے باوجود دولت کی ریل پیل کا کھیل جاری ہے۔ مختلف اسمبلی حلقوں میں رائے دہندوں کو رقم اور تحائف دے کر خریدا جارہا ہے۔ اس ضمن میں کئی مقدمات درج بھی کئے جاچکے ہیں۔ ریاستی چیف الیکٹورل آفیسر مسٹر بھنور لال نے رائے دہندوں اور امیدواروں کے علاوہ سیاسی جماعتوں سے واضح طور پر کہا ہے کہ انتخابات میں رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے انھیں رقم یا تحائف کی شکل میں رشوت کی پیشکشی اور حصول دونوں قانوناً جرم ہے جس کیلئے ایک سال قید اور جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ریاستی الیکشن کمیشن کی جانب سے رائے دہندوں کو ایس ایم ایس بھی کئے جارہے ہیں۔ راقم الحروف نے مختلف مقامات پر بزرگ شہریوں، سماجی جہدکاروں، نوجوانوں سے بات کی۔ سب کا یہی تاثر تھا کہ ایسے امیدوار کے حق میں ووٹ کا استعمال کیا جانا چاہئے جو عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو اور شخصی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم کے مفادات کو ترجیح دیتا ہو۔

عوام کو ایسے امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے جو عوامی مفادات کی سودے بازی کے گندے ہنر سے ناواقف اور جذبہ خدمت خلق سے سرشار ہو۔ انتخابات میں دولت کی ریل پیل رائے دہندوں کو خریدنے کیلئے رقم کی تقسیم کی ان میں تحائف بانٹنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اس بات کا اعتراف خود الیکشن کمیشن نے کیا ہے کہ آندھراپردیش میں رائے دہندوں کو راغب کرنے کیلئے پارلیمانی اور اسمبلی حلقوں کے امیدوار بڑے پیمانے پر رائے دہندوں کو رشوت دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن ووٹ ڈالنے سے پہلے رائے دہندوں کو یہ اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ ان کے سامنے کونسی سیاسی جماعتیں اور کونسے امیدوار موجود ہیں۔ امیدوار کی تعلیمی قابلیت کیا ہے، اگر وہ کروڑپتی ہے تو ان کے ماضی پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کی عوامی و ملی خدمات کے ریکارڈ کا بھی جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ بھی دیکھا جانا لازمی ہے کہ ہم جس نمائندہ کو منتخب کرنے والے ہیں آیا وہ آپ کے آواز دینے پر آپ کی خدمت کیلئے پہنچ پاتا بھی ہے یا نہیں۔ شہر میں اکثر مقامات پر عوام نے یہی بتایا کہ اب کی بار وہی امیدوار کامیاب ہوں گے جو حقیقت میں عوام کے خدمت گذار ہیں، کیونکہ خدمت کا دعویٰ کرنے والا ہر امیدوار سچا نہیں ہوسکتا۔ ایک سماجی جہدکار نے جو اپنے انقلابی بلاگ کیلئے شہرت رکھتے ہیں بتایا کہ ووٹ ہماری طاقت ہے۔ 500 روپئے کے عوض اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ آج اس طاقت کے باعث ہر کوئی ہماری دہلیز پر پہنچ رہا ہے۔ ان حالات میں اگر کوئی آپ کا استحصال کرتے ہوئے 500 یا 1000 روپئے کے عوض ووٹ خریدے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے 5 سال کیلئے اپنے ووٹ کو فی یوم تقریباً چار آنے کیلئے فروخت کردیا ہے۔ اُنھوں نے عوام کو مشورہ دیا کہ ایسے امیدوار کو کامیاب بنائیں جو ووٹ خریدنے کی کوشش نہ کرے کیونکہ آج جو آپ کا ووٹ خریدے گا کل آپ کے مفادات کا سودا کرے گا تب کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں رہے گا۔ ووٹ ایک امانت ہے، ایک ایسی امانت جو بدعنوان اور عوام کی قیمت پر سیاسی سودے بازی کرنے والوں کو پارلیمنٹ و اسمبلی میں پہنچنے سے روکتی ہے۔ ووٹ عوام کی وہ طاقت ہے

جو آپ کو قائدین کے استحصال کا شکار بننے سے بچاتی ہے۔ ووٹ آپ اور آپ کے بچوں کے بہتر مستقبل کو یقینی بناتا ہے۔ ایسے میں ووٹ کا سمجھداری اور ہوشیاری سے استعمال کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے شیدا اور آصفجاہی حکمرانی و حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب کے دلدادہ کیپٹن پانڈو رنگا راؤ سے راقم الحروف نے بات چیت کی جس پر اُنھوں نے کہاکہ اکثر وہی امیدوار ووٹ خریدتے ہیں جو عوامی مفادات کا سودا کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایسے امیدوار کو کامیاب بنانا چاہئے جو حقیقت میں عوامی خدمت گذٓر ہو ورنہ آج کل انتخابی عمل میں رائے دہندوں میں روپیہ پیسہ تقسیم کرنے والوںکی کوئی کمی نہیں۔ حیدرآباد و سکندرآباد کے پارلیمانی حلقوں اور ان حلقوں کے تحت آنے والے اسمبلی حلقوں میں نوجوان ووٹروں کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوا ہے۔ اگر نوجوان رائے دہی کے موقع پر صحیح فیصلہ کرتے ہیں تو معاشرہ میں ایک صحتمند انقلاب برپا ہوگا۔ ویسے بھی ہندوستان میں اس مرتبہ کئی ملین ووٹروں کا اضافہ ہوا ہے جہاں تک انتخابات میں نوٹوں کے بدلے ووٹوں کا معاملہ ہے ہر پارٹی اور ہر امیدوار خود کو بڑا صاف و شفاف قرار دیتا ہے لیکن موقع ملتے ہی بڑی خاموشی کے ساتھ رقم کی تقسیم عمل میں لاکر ہی دم لیتا ہے۔ جمعہ کو ہی سائبرآباد پولیس نے بنگلور سے آنے والے بس کے دو مسافرین کے قبضہ سے 8.3 کروڑ روپئے برآمد کئے جو انتخابات میں رائے دہندوں میں تقسیم کے لئے لائے جارہے تھے۔ اس سلسلہ میں کاچی گوڑہ کے رہنے والے پرشانت اور درشن کو گرفتار کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں رشوت کے لینے اور دینے والوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 171B ، 171E کے تحت مقدمات درج کئے جائیں گے۔ حال ہی میں شائع ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر حلقہ اسمبلی میں 7 تا 10 کروڑ روپئے اور پارلیمانی امیدوار کم از کم 25 کروڑ روپئے خرچ کررہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر مخالف امیدوار 1000 روپئے رائے دہندوں کو دے رہا ہو تو دوسرے امیدوار کو رائے دہندوں کو رجھانے کیلئے 1500 روپئے دینے پڑ رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ عام آدمی پارٹی کی تلنگانہ انتخابی مہم کمیٹی کے ترجمان ایل ویشویشور راؤ کا کہنا ہے کہ ریاست میں انتخابی مہم کے لئے سیاسی جماعتیں 30000 کروڑ روپئے خرچ کررہی ہیں۔ بہرحال رقم ادا کرتے ہوئے ووٹ خریدنے والوں پر بھروسہ مت کیجئے کیونکہ یہ ملک و ملت کے مستقبل کا معاملہ ہے۔