جوینائل ہوم سعید آباد میں شہید ہوئے کمسن لڑکے کے معذور باپ کی تڑپ

انصاف رسانی کا مطالبہ ، معاوضہ دینے کا کوئی اعلان نہیں ، میرے بیٹا ہی میرا بازو تھا ، مبین انصاری کا تاثر
حیدرآباد ۔ 29 ۔ جنوری : ( محمد ریاض احمد ) : جوینائل ( گورنمنٹ اسپیشل ہوم فار بوائز سعید آباد ) میں بنارس سے تعلق رکھنے والے ایک 12 سالہ لڑکے کی اچانک موت واقع ہوجاتی ہے ۔ اس جوینائل ہوم کے ذمہ دار پریشان ہوجاتے ہیں ۔ تفتیش پر اس ہوم میں موجود ایک 16 سالہ لڑکا اقبال جرم کرلیتا ہے کہ بدفعلی سے انکار پر اس نے اپنے ساتھی محمد آصف جمال انصاری کا گلہ گھونٹ کر قتل کیا ہے ۔ 30 جولائی 2013 کو بنارس میں واقع اپنے گھر سے فرار ہو کر حیدرآباد پہنچنے والے کمسن آصف جمال انصاری کو پولیس نے پکڑ کر اگست 2013 سے جوینائل ہوم سعید آباد میں رکھا تھا یعنی تقریبا 17 ماہ تک وہ بچوں کی اس جیل میں رہ کر موت کی آغوش میں بھی پہنچ گیا ۔ 17 ماہ تک اپنے بیٹے کے لاپتہ ہونے پر پریشان باپ محمد مبین انصاری دردر کی ٹھوکریں کھاتا رہا ہے ۔ اپنے بیٹے کی تصویر پر مبنی پمفلٹس کو مختلف مقامات شہروں اور ریاستوں میں جانے والی بسوں اور ٹرینوں پر چسپاں کرتا رہا کیوں کہ اسے امید تھی کہ ایک نہ ایک دن اس کا بیٹا ضرور واپس ہوگا ۔ اس امید میں وہ ہر وقت اپنے نور نظر کی واپسی کا انتظار کرتا رہتا ۔ ایک خانگی مدرسہ میں 1200 روپئے ماہانہ یافت پر ٹیچر کی حیثیت سے کام کرنے والے محمد مبین انصاری کو اپنے ایک ہاتھ کے نہ ہونے کا کوئی افسوس نہیں تھا کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ ان کی اس کمی کو ان کا اپنا بیٹا پوری کردے گا وہ اپنے باپ کا ہاتھ بن جائے گا تاہم قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ماں جیسی قدرت کی انمول نعمت سے محروم بھی تھا ۔ ایک ظالم نے اس کمسن لڑکے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادیا ۔ پتہ نہیں ہمارے ملک میں ایسے کتنے آصف جمال ہوں گے جو اپنے گھروں سے بھاگ کر موت کی آغوش میں پہنچ رہے ہوں گے ۔ ہماری ملاقات آصف جمال انصاری کے غمزدہ والد 40 سالہ محمد مبین انصاری سے ہوئی جو ایک ہاتھ سے محروم ہیں ۔ آصف ان کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ آصف جمال انصاری کی موت جوینائل ہوم کے ذمہ دار عہدیداروں کی مبینہ غفلت کے نتیجہ میں ہوئی ہے ۔ اگر 17 ماہ کے عرصہ میں اسے یہاں رکھنے کی بجائے وارانسی میں ان کو اطلاع دیتے تو وہ کم از کم شہر میں موجود اپنے رشتہ داروں کو آگاہ کرتے ہوئے اس بچے کو جوینائل ہوم سے لے کر چلے جاتے اس طرح اس کا قتل نہیں ہوتا ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2013 کو بڑا گاؤں پولیس اسٹیشن وارانسی میں ایف آئی آر درج کرائی تھی ۔ محمد مبین انصاری نے بتایا کہ میرے بچے کی موت کے ذمہ دار کون ہے ۔ یہ فیصلہ خود جوینائل ہوم کے ذمہ دار کرسکتے ہیں اور وہی بتاسکتے ہیں کہ مقتول لڑکے کے غریب باپ کو کیا معاوضہ دیا جائے ۔ ویسے بھی اسی طرح کے واقعات میں متاثرہ خاندان کو 5 لاکھ تک معاوضہ دیا جاتا ہے ۔ اور دیا بھی جانا چاہئے ۔ حالانکہ معاوضہ محمد آصف جمال انصاری کا نعم البدل ثابت نہیں ہوسکتا پھر بھی ایک غریب اور معذور باپ کو مالی راحت نصیب تو ہوسکتی ہے ۔ محمد مبین انصاری کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایڈیٹر سیاست کی ہدایت پر سیاست ملت فنڈ سے ان کے بیٹے کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی ۔ جس کے لیے وہ ادارہ سیاست اور ایڈیٹر سیاست سے اظہار تشکر کرتے ہیں ۔ اپنے جواں بیٹے سے محروم اس غریب و غمزدہ باپ کی مالی مدد کے خواہاں افراد ان کی مدد کرسکتے ہیں ۔۔