پاکستان یا ہندوستان میں جب کبھی سیاسی مسائل اور چیلنجس پیدا ہوتے ہیں تو جموں و کشمیر سے متصل سرحد کا سہارا لے کر عوام الناس کی توجہ اس سرحد پر ہونے والی فوجی سرگرمیوں کی طرف مبذول کردی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کے عوام کو احمق بنانے والی حکومتوں نے اپنے مفادات کی خاطر خطہ کے امن و سکون کو غارت کیا ہے۔ پاکستان پر الزام ہیکہ وہ مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کررہا ہے۔ مرکز میں نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کے آنے کے بعد سے پاکستان نے سرحدی تنازعہ کو ہوا دینا شروع کیا ہے۔ ابتداء میں اگرچیکہ وزیراعظم مودی نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کو اپنی حلف برداری تقریب میں مدعو کرکے پڑوسی ملکوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور دوستانہ ماحول کو فروغ دینے کے جذبہ کا مظاہرہ کیا تھا۔ قائدین کی سطح پر اس جذبہ خیرسگالی کی زبردست ستائش کی گئی تھی اور ہند ۔ پاک معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت شروع ہونے ہی والی تھی کہ پاکستان نے کشمیری علحدگی پسندوں سے بات چیت کرکے ہندوستان کو ناراض کردیا جس سے یہ مذاکرات ملتوی کردیئے گئے۔ حکومت پاکستان نے علحدگی پسندوں سے بات چیت کا عمل پہلی مرتبہ نہیں کیا تھا
مگر اس نے علحدگی پسندوں سے بات چیت کیلئے جو وقت منتخب کیا وہ ہندوستان کی ناراضگی کا باعث بنا۔ جب دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو استوار کرنے اور مسائل کی یکسوئی کی جانب توجہ دینے کی پہل کی تھی تو پاکستان کو محتاط رہنے کی ضرورت تھی لیکن رکاوٹ پیدا کرنی ہو تو کچھ نہ کچھ غلطی ہوجاتی ہے یا کسی نہ کسی چیز کا عذر پیش کرکے بات چیت روک دی جاتی ہے۔ دونوں جانب ایسا ہی ہوا جس سے تعلقات میں کشیدگی برقرار رہی۔ اگرچیکہ حالیہ سیلاب نے جموں و کشمیر میں خطرناک تباہی لائی ہے یہاں عوام الناس کو راحت پہنچانے کے کام انجام دینا ضروری ہے جو پاکستان اکثر کشمیریوں کے لئے آواز اٹھاتا ہے وہ اگر سرحدی تنازعہ کو ہوا نہ دے تو کشمیر میں فوج کو بچاؤکاری خدمات انجام دینے میں مدد ملے گی۔ پاکستان کے تعلق سے کہا جارہا ہیکہ اس نے سرحد پر بے در پے جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ بین الاقوامی سرحد اور جموں و کشمیر کے خطہ قبضہ پر اتوار کی شب کی گئی بھاری شلباری میں 8 افراد ہلاک اور 28 زخمی ہوئے۔ اس کے باوجود ہندوستان نے صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کا ادعا کیا ہے۔ سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش دونوں ملکوں کیلئے بھلائی کا کام نہیں ہے۔ یہ کشیدگی دور کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اعلیٰ سطح تک لے جانے قومی سطح پر مؤثر کوشش ہونے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیشن سے خطاب کے بعد وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات نہ ہونے سے بھی دونوں جانب کشیدگی میں اضافہ کا اشارہ ملتا ہے۔ اگر دونوں قائدین کی ملاقات کا اہتمام کیا جاتا تو عالمی سطح پر مثبت پیام جاتا تھا۔ سابق میں بھی کشیدگی کے باوجود ماضی کے سربراہان مملکت نے باہمی ملاقات کی ہے
اس مرتبہ وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کا پروگرام طئے نہیں کیا اور نہ ہی پاکستان کی جانب سے ایسی کوئی کوشش کی گئی ۔ اب دونوں جانب اس طرح کی ناراضگی برقرار رہتی ہے تو یہ خطہ کے امن و خوشحالی کیلئے مناسب نہیں ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی پالیسیوں اور پروگراموں کو پرامن انداز میں ترقی سے مربوط کردیا ہے تو ہندوستان میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان سے کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے تو ہندوستان میں ترقیات کا عمل متاثر ہوگا۔ پاکستان کو بھی اپنے داخلی مسائل پر پردہ ڈالنے کیلئے سرحد کا استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان کی اپوزیشن پارٹیوں کے مخالف نوازشریف حکومت احتجاج کو ناکام بنانے کی خاطر سرحد پر تعینات فوج کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ سرحدی کشیدگی اور مسلسل شلباری پر ہندوستان نے بھی منہ توڑ جواب دینے کا ارادہ کرلیا ہے تو اس سے سوائے نقصانات کے کچھ نہیں ہوگا۔ مگر سرحد کے اس پار کے لوگوں کو سبق سکھانے کیلئے اپنی فوج کا استعمال کردیا جائے تو سیلاب سے تباہ کشمیر کیلئے ایک اور ستم ہوگا۔ عوام الناس کی جان و مال کا تحفظ حکمرانوں کا فریضہ ہوتا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام سیلاب کی تباہیوں اور اجڑی زندگیوں سے پریشان ہیں۔ انہیں سرحدی کشیدگی کے ذریعہ مزید پریشان کرنے سے انسانی حقوق کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے۔ بعدازاں عالمی برادری کو مداخلت کرنی پڑے گی جو برصغیر کے امور اور یہاں کی قیادتوں کے لئے باعث شرم بات ہوگی۔ اس لئے عالمی مداخلت سے گریز کرنے کیلئے دونوں ملکوں کی حکومتوں کو عقلمندی، سمجھداری اور پڑوسی ہونے کے جذبہ سے ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو استوار کرنا چاہئے۔ سرحدی کشیدگی یا شلباری سے بلاشبہ انسانی جانوں کا نقصان ہے اور کسی انسان کو ہلاک کرنا بڑا گناہ ہے۔ پاکستان کی فوج ناحق کسی انسان کو ہلاک کرتی ہے تو اس کا یہ عمل پاکستان کی پالیسی اور قانون و شرعی اعتبار سے قابل سزا ہے اس لئے صبر و تحمل برقرار رکھتے ہوئے بات چیت کی میز پر آنے کی کوشش کرنی چاہئے۔