جنگ بندی کی خلاف ورزیاں

ڈولتا ہے سنگھاسن جب کبھی حکومت کا
سرحدوں پہ بندوقیں گولیاں اُگلتی ہیں
جنگ بندی کی خلاف ورزیاں
جموں و کشمیر میں لائین آف کنٹرول اور اس کے اطراف کے علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہوگئی ہے ۔ لائین آف کنٹرول پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ طویل ہوتا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں اموات بھی ہو رہی ہیں اور معصوم لوگ زخمی بھی ہو رہے ہیں۔ یہ خلاف ورزیاں ایسی ہیں جو اگر فوری ختم نہیں ہوئیں تو اس کے نتیجہ میں ہندوستان و پاکستان کے مابین تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہوسکتی ہے جبکہ پہلے ہی سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری پیدا ہوگئی ہے ۔ پاکستان کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت سے عین قبل کشمیری علیحدگی پسند قائدین سے ملاقات کے بعد باہمی بات چیت کو منسوخ کردیا گیا تھا اور تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔ ہندوستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد حالانکہ یہ اشارے دئے گئے تھے کہ تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائیگی ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے اس کا صحیح جواب نہیں دیا ہے ۔ وزیر اعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں سارک ممالک کے ساتھ پاکستان کے وزیر اعظم کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور وہ اس تقریب میں شریک بھی ہوئے تھے ۔ یہاں سے حالات مثبت انداز میں آگے بڑھنے کی امید کی جا رہی تھی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف حالات پیش آ رہے ہیں اور سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوتا جا رہاہے ۔ پاکستان کی جانب سے ہندوستانی ٹھکانوں پر بلا اشتعال فائرنگ کی جا رہی ہے ۔ ہندوستانی جوانوں کی جانب سے بھی حالانکہ اس جنگ بندی کا جواب دیا جا رہا ہے لیکن یہ سب کچھ دونوں ملکوں کے تعلقات کیلئے اچھا نہیں کہا جاسکتا ۔ پاکستان کو جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ فوری روکنے کی ضرورت ہے ۔ اسے سنجیدگی کے ساتھ حالات کا جائزہ لے کر سرحدات پر امن و سکون پیدا کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔ حالات اگر مزید بگڑ جاتے ہیں تو یہ خود پاکستان کیلئے اچھا نہیں ہوسکتا ۔ دونوں ملکوں میں حالات کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ کوششوں کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان کی جانب سے سرحدات پر حالات کو بگاڑنے کی بجائے بہتر بنانے پر توجہ دی جائے ۔
ہندوستان و پاکستان جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک ہیں۔ ہندوستان علاقہ میں ایک بڑی طاقت ہے اور اس کے ہمسایہ کی حیثیت سے پاکستان اس سے فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر پڑوسیوں جیسے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کرے ۔ جس طرح سے معتمدین خارجہ سطح کی بات چیت سے قبل علیحدگی پسند قائدین سے ملاقات کرکے حالات کو بگاڑا گیا ہے اس کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے ۔ ماضی میں یہ روایت رہی کہ پاکستان سے اگر کوئی مہمان لیڈر ہندوستان آتے تو علیحدگی پسند قائدین ان سے ملاقات کرتے تھے ۔ پاکستانی ہائی کمیشن میں کبھی علیحدگی پسند قائدین سے رابطہ کی کوششیں نہیں کی گئی تھیں ۔ لیکن اس بار ہائی کمیشن نے ان قائدین کو مدعو کیا تھا جس پر ہندوستان کا اعتراض بجا تھا ۔ اس بات چیت کے ذریعہ پاکستان نے باہمی سطح پر بات چیت کے ذریعہ حالات کو بہتر بنانے کی ایک بہترین کوشش کو ناکام بنادیا ہے اور ایک ایسا موقع ضائع کردیا گیا جس سے استفادہ کرتے ہوئے حالات کو بہتری کی سمت آگے بڑھایا جاسکتا تھا ۔ اس کے علاوہ اب سرحدات پر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے مسلسل فائرنگ کی جا رہی ہے جس کے نتیجہ میں معصوم افراد کی اموات بھی ہو رہی ہیں اور لوگ زخمی بھی ہو رہے ہیں۔ سرحدی علاقوں کے عوام میں خوف وہراس کی لہر دوڑ گئی ہے اور حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔
حالیہ عرصہ میں پاکستان کی روش میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے ۔ جہاں علیحدگی پسند قائدین کو ہائی کمیشن میں مدعو کیا گیا وہیں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی اجلاس سے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کو موضوع بحث بنانے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کشمیر میں استصواب عامہ کروانے کے پاکستان کے دیرینہ مطالبہ کا اعادہ کیا ہے ۔ یہ کوشش ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں معاون ہونے کی بجائے اس کے نتیجہ میں تعلقات میں مزید دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں میں پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو باہمی سطح تک محدود رکھا تھا لیکن اس نے اب پھر اسے اقوام متحدہ میں موضوع بحث بنایا ہے ۔ اس سے باہمی مسئلہ پر فریقین کی آپسی بات چیت کے امکانات مزید متاثر ہوتے ہیں۔ پھر سرحدات پر فائرنگ کے ذریعہ بھی پاکستان باہمی تعلقات کو مزید ابتر بنانے کا ذمہ دار ہو رہا ہے ۔ پاکستان کو ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جن کے نتیجہ میں تعلقات بہتر ہونے کی بجائے مزید کشیدہ ہوجائیں۔