آگ تھی کچھ اس قدر جذبات میں
گھر جلا اب کے بھری برسات میں
جنگ بندی کی خلاف ورزیاں
جموں و کشمیر میں رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی دونوں ملکوں ہندوستان اور پاکستان کی سرحدی افواج کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا لیکن خطہِ قبضہ اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات نے وادی میں کشیدگی کا ماحول پیدا کردیا ہے ۔ پاکستانی رینجرس کی فائرنگ میں بی ایس ایف کے دو جوانوں کی ہلاکت ہندوستانی سرحدی چوکیوں پر حملے افسوسناک ہیں ۔ دونوں ملکوں کے ڈائرکٹرس جنرل آف ملٹری آپریشنس ( ڈی جی ایم اوز ) نے 2003 کے جنگ بندی معاہدہ کو اس کی اصل روح اور منشا کے مطابق نافذ کرنے سے اتفاق کیا تھا اور یہ طئے ہوا تھا کہ سرحدوں پر کسی قسم کی کوئی گولہ باری ، فائرنگ یا سنگباری نہیں کی جائے گی لیکن جموں کے سرحدی علاقوں میں گذشتہ ماہ 15 مئی سے 23 مئی کے درمیان پاکستانی فوج کی جانب سے شلباری میں شدت کی شکایت سامنے آئی ہے ۔ اس فائرنگ میں اب تک دو جوانوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے ۔ توقع کی جارہی تھی کہ ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ کے بعد سرحدی علاقوں کو امن بخشا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ کپواڑہ کے کیرنا سیکٹر میں دراندازی کی کوشش کی گئی جس میں ایک انتہا پسند ہلاک ہوا ۔ جنگ بندی کے معاہدہ کے باوجود اگر یہاں فائرنگ کے واقعات ہوتے ہیں تو یہ سنگین خلاف ورزی ہے ۔ وادی میں گذشتہ 3 سال یا 4 سال کے درمیان جنگ بندی کی خلاف ورزیاں سب سے زیادہ دیکھی گئی ہیں ۔ مقامی افراد کے جان و مال کے تحفظ کے لیے تیاری کرنے والی فوج کو اس صورتحال سے نمٹنے میں دشواریاں پیدا ہورہی ہیں ۔ جموں سرحد کے قریب واقع مواضعات کے باشندوں کی زندگیاں ہر روز خطرے کی گھنٹی سے ہو کر گذر رہی ہیں ۔ اس علاقہ میں زرعی سرگرمیاں ٹھپ اور اسکولوں میں تعلیمی ماحول ختم ہوگیا ہے ۔ ہندوستانی فوج نے اس صورتحال سے نمٹنے میں اپنی تمام تر طاقت کو جھونک دیا ہے ۔ اس کے باوجود سرحد پار سے پیدا کی جانے والی صورتحال نازک بنادی جائے تو عوام کا جینا مشکل ہوجاتا ہے ۔ 2015 میں ایل او سی کے قریب 152 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی گئیں ۔ 2016 میں 228 اور 2017 میں 860 جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوئی تو اس سال فروری تک ہی 432 واقعات کا نوٹ لیا گیا ۔ ایک طرف پاکستان کی جانب سے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کی روزمرہ زندگی کو اجیرن بنائے جانے کی شکایت ہے تو دوسری طرف ہندوستانی حکومت کی جانب سے ان مجبور اور پریشان دیہی عوام کی مشکلات دور کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔ حکومت جموں و کشمیر نے سرحدی علاقوں کے مواضعات میں صحت عامہ کے بارے میں کوئی خاص انتظامات نہیں کئے ہیں ۔ مقامی عوام اسے اپنی ہی حکومت کی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی جانب نشاندہی کی ہے ۔ فائرنگ میں زخمی ہونے والوں کے علاج کے لیے بروقت ایمبولنس کی فراہمی کا مسئلہ پایا جاتا ہے ۔ پہاڑی علاقوں میں رہنے والوں کو ہیلت سہولتیں حاصل نہیں ہوں تو ان کے لیے امن و سکون کا ماحول کس طرح پیدا ہوگا ۔ امن کس کو کہتے ہیں اور یہ کیا چیز ہوتی ہے اس کا احساس صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو ہر روز سرحدی علاقوں کی فائرنگ شلباری اور دراندازی کے واقعات کا سامنا کرتے ہیں ۔ وادی میں حکومت ہند اور حکومت پاکستان نے جنگ بندی کا اعلان تو کیا ہے لیکن بعض گروپس ایسے ہیں جو اپنے ایجنڈہ کو بہر حال روبہ عمل لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض دہشت گرد گروپس بھی ایسی کسی جنگ بندی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ان حالات میں دونوں ملکوں کی فوج کو ہی باہمی اعتماد سازی اور امن کی برقراری کو یقینی بنانے پر زور دینا ہوگا ۔ مودی حکومت نے رمضان کے موقع پر جنگ بندی کا جو حکم دیا تھا وہ دراصل واجپائی حکومت کی جانب سے نومبر 2000 تا مئی 2001 کے اقدام کی نقل ہے لیکن واجپائی حکومت نے کشمیر میں امن کے قیام کے لیے محتاط طریقہ سے تیاری کی تھی ۔ مودی حکومت نے ایسا کیوں نہیں کیا ۔ یہ سوال موجودہ صورتحال کی سنگینی کو آشکار کرتا ہے ۔۔