محمد یوسف
کفر و ایمان کا پہلا معرکہ بدرکے میدان میں ہوا۔ یہ مقام مکہ مکرمہ سے شام اور مصر کو تجارت کی غرض سے جانے والی گزرگاہ کے قریب ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً ۱۵۵کیلو میٹر اور مکہ معظمہ سے ۳۱۰کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ ساڑھے پانچ میل لمبا اور ساڑھے چار میل چوڑا بیضوی شکل کا یہ میدان ہے۔ اس بطن وادی کا نام یلیل تھا، جو بدر اور اس ٹیلے کے درمیان تھی۔ بدر ایک گاؤں کا نام ہے، زمانۂ قدیم میں یہاں ایک میلہ لگتا تھا، جو ہفتہ بھر جاری رہتا تھا۔
مدینہ منورہ سے تقریباً سو کیلو میٹر سڑک پہاڑوں کے درمیان سے گزرتی ہے۔ بدر سے کچھ قریب ریتیلے میدان اور ٹیلے ہیں۔ اسی شاہراہ پر ینبوع واقع ہے، جو ایک صنعتی شہر ہے۔ موجودہ بدر کی آبادی ڈھلان میں واقع ہے۔ جدید قسم کے دو منزلہ مکانات سڑک کے کنارے ترتیب سے تعمیر کئے گئے ہیں، جو دیکھنے میں بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ آبادی کے اختتام پر سڑک سیدھی جانب اونچائی کی طرف مُڑتی ہے، جب کہ سیدھی جانب ایک بڑا قدیم نخلستان ہے، جس کی چہار دیواری شکستہ ہے۔ اس نخلستان سے متصل ہی بدر کا میدان ہے، جو چاروں طرف سے دیواروں سے گھرا ہوا ہے، جس کے اندر داخلہ ممنوع ہے۔ سڑک کے سامنے کی دیوار تقریباً آٹھ فٹ اونچی ہے، دیوار کے روبرو ایک بورڈ نصب ہے، جس پر ’’مقبرہ شہدائے بدر‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس کے سامنے سڑک کا وسیع حصہ ہے، جس کے بیچوں بیچ لوہے کے ستونوں کے درمیان سنگ مرمر کی ایک بڑی تختی آویزاں ہے، جس پر شہدائے بدر کے نام کندہ ہیں۔ بدر کی نئی آبادی سے جدہ یا مکہ معظمہ جانے والی سڑک پر پُرانے کھنڈرات ہیں اور یہ سڑک زیادہ تر مسطح ہے۔
۱۲؍ رمضان المبارک سنہ ۲ہجری کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۳۱۳ جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو سیاہ پرچم تھے، ان دونوں میں سے ایک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا، جس کا نام عقاب تھا، جب کہ دوسرا پرچم ایک انصاری صحابی کے ساتھ تھا۔ اس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ساتھ ستر (۷۰) اونٹ تھے اور یہ حضرات ان پر باری باری سوار ہوتے تھے۔
فریقین کی عسکری طاقت کا کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔ قریش کی جمعیت ایک ہزار تھی، جس میں سو سواروں کا رسالہ تھا، ابولہب کے سوا مکہ کے تمام رؤسا اور سردار اس جنگ میں شریک تھے، جو لوہے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھیں جنگوں کا تجربہ تھا اور اس زمانے کے مروجہ اسلحہ بھی انھیں دستیاب تھے۔ قریش کی فوج کا سپہ سالار عتبہ بن ربیعہ تھا۔ اس کے برخلاف مہاجرین کے علاوہ مدینہ کے انصار زیادہ تر زراعت پیشہ تھے، جو فنون حرب سے ناواقف تھے اور نہ ضرورت کے مطابق ان کے پاس سامانِ حرب تھا۔
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ابوجہل کے خلاف حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل میں ایک لاوا پک رہا تھا۔ جب یہ معلوم ہوا کہ وہ لوگوں کے درمیان ہے تو انھوں نے اس تک پہنچنے کا ارادہ کیا اور اپنے ارادہ میں کامیاب رہے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ابوجہل جیسا تجربہ کار سردار ایک نوجوان کے ہاتھوں خاک پر تھا۔
انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ خالقِ کائنات نے اپنے برگزیدہ بندوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا، جنھوں نے ان کے ساتھ دوبدو لڑتے ہوئے دشمنانِ اسلام کو پسپا کردیا۔ یہ عجیب منظر تھا کہ اتنی بڑی دنیا میں ’’توحید‘‘ کا علم صرف چند نفوس کے ہاتھوں میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے خدا! تونے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے، آج اسے پورا کردے۔ اے اللہ! اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا، مخالفین کو شکست ہوئی اور مؤمنین کو فتح حاصل ہوئی۔ جنگ بدر میں ۱۴صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو شہادت نصیب ہوئی اور قریش کے ستر آدمی مارے گئے، جن میں تقریبا سبھی بڑے بڑے سردار شامل تھے۔
شہدائے بدر کے اسماء اس طرح ہیں: حضرت عمیر بن ابی وقاص، حضرت صفوان بن وہب، حضرت ذوالشمالین بن عبد عمرو، حضرت مھجع بن صالح، حضرت عاقل بن البکیر، حضرت عبیدہ بن الحارث، حضرت سعد بن خیثمہ، حضرت مبشر بن عبد المنذر، حضرت حارثہ بن سراقہ، حضرت رافع بن المعلا، حضرت عمیر بن الحمام، حضرت یزید بن الحارث، حضرت معوذ بن الحارث اور حضرت عوف بن الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔