حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد (نبوی) میں بیٹھے ہوئے تھے اور فقراء مہاجرین کا حلقہ جما ہوا تھا کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فقراء کی طرف چہرۂ مبارک کرکے بیٹھ گئے۔ میں بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں) فقراء کے قریب پہنچ کر ان کی طرف متوجہ ہو گیا (تاکہ آنحضرتﷺ ان سے جو کچھ فرمائیں، ان ملفوظات کو میں بھی سن سکوں) چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’فقراء مہاجرین کو وہ بشارت پہنچا دینا ضروری ہے، جو ان کو مسرور و شادماں کردے، پس (وہ بشارت یہ ہے کہ) فقراء مہاجرین جنت میں دولت مندوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے‘‘۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ’’بخدا میں نے دیکھا کہ (یہ بشارت سن کر فقراء (کے چہروں) کا رنگ روشن و تاباں ہو گیا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ (بشارت سن کر اور فقراء کے چہروں کی تابانی و شگفتگی) دیکھ کر میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ (کاش) میں بھی ان ہی جیسا ہوتا (یعنی اس دنیا میں مجھ پر بھی فقر و افلاس طاری ہوتا اور میں اس جماعت فقراء میں شمار ہوتا) یا یہ کہ ان میں سے ہوتا (یعنی آخرت میں اس جماعت کے ساتھ اٹھتا اور ان ہی کے ساتھ میرا حشر ہوتا)‘‘۔ (الدارمی)
حدیث شریف میں ’’بما یسر وجوھھم‘‘ میں لفظ ’’وجوہ‘‘ سے مراد یا تو ذات ہے یا جیسا کہ ترجمہ میں اس کو ملحوظ رکھا گیا ہے، یا یہ لفظ اپنے اصل معنی ’’چہرہ‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ’’(فقراء مہاجرین کو بشارت پہنچا دینا ضروری ہے) جو ان کے دلوں کو خوش کردے اور اس خوشی کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر و نمایاں ہو‘‘۔