جنت کی لذت

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
اللہ رب العزت نے ہر انسان کے لئے ایک مکان جنت میں بنایا ہے اور ایک مکان جہنم میں۔ موت کے وقت اگر وہ نیک آدمی ہو تو اس کو پہلے جہنم کا مکان دکھایا جاتا ہے کہ ’’اے میرے بندے! اگر تو برائیاں کرتا تو یہ تیرا ٹھکانا ہوتا۔ اب چوں کہ تونے نیک زندگی گزاری ہے، لہذا تیرا ٹھکانہ جنت میں ہے‘‘۔ جب اس نیک بندے کو جنت کا ٹھکانا دکھایا جاتا ہے تو اس کو اتنی خوشی ہوتی ہے کہ موت کی تکلیف بھی وہ بھول جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر وہ بندہ گنہگار ہو تو اس کو اللہ رب العزت کے فرشتے جنت کا مکان دکھاتے ہیں اور اس سے کہا جاتا ہے کہ ’’اگر تو نیکی کرتا تو تیرے لئے اللہ رب العزت نے یہ مکان تیار کیا تھا۔ چوں کہ تونے برائیاں کیں، گناہ کئے، توبہ بھی نہ کی اور تیری موت منافقت، شرک اور کفر پر ہوئی ہے، اس لئے اب تجھے جہنم میں ڈالا جائے گا‘‘۔ اس وقت اس شخص کے دل میں حسرت بڑھ جائے گی کہ ’’کاش! میں بھی ایمان قبول کرلیتا اور نیک ہوتا تو مجھے بھی جنت مل جاتی‘‘۔ پھر جب اسے جہنم میں اس کا ٹھکانا دکھایا جائے گا تو اس کو موت کی تکلیف بھی یاد آئے گی، جس کی وجہ سے اس کی تکلیف میں کئی گنا اضافہ ہو جائے۔

قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’جہنم کے سات دروازے ہیں‘‘ (سورہ حجرات۔۴۴) لیکن حدیث پاک میں ہے کہ ’’جنت کے آٹھ دروازے ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں علماء یہ نکتہ بیان فرماتے ہیں: ’’یعنی جہنم کے سات اور جنت کے آٹھ دروازے بنانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کے زیادہ بندے جنت میں داخل ہوں‘‘۔ یقیناً اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ میرے بندے نیکی کریں اور یہ جہنم میں جانے کی بجائے جنت میں زیادہ جانے والے بن جائیں۔

جنت، اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی ایک جگہ ہے، جس کے بارے میں ہے کہ ’’کسی آنکھ نے اسے دیکھا نہیں، کسی کان نے اس کے بارے میں سنا نہیں اور کسی انسان کے دل پر اس کا خیال تک نہیں گزرتا، گویا جنت ہمارے خواب و خیال سے بھی زیادہ حسین اور خوبصورت جگہ ہے۔ یہ اللہ رب العزت کے نیک بندوں کی رہائش گاہ ہے۔ عرش خداوندی جنت کی چھت ہوگی اور عرش کے بالکل نیچے یہ جنت ہوگی۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ ’’آسمان کو جب ہم نے بنایا تو اس کو توسیع بخشی، یعنی یہ ہر وقت پھیل رہا ہے‘‘ (سورہ بقرہ۔۲۲) علماء نے لکھا ہے کہ جس طرح آسمان ہر وقت پھیل رہا ہے، اسی طرح جنت بھی ہر وقت پھیل رہی ہے۔ جس طرح کمان سے تیر نکل کر تیزی کے ساتھ سفر کرتا ہے، اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ جنت پھیلتی جا رہی ہے اور اللہ رب العزت کی رحمت دم بہ دم اس کے بندوں پر بڑھ رہی ہے۔ یہ اللہ رب العزت کی مہربانی ہے، یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے انعام والی جگہ کو پھیلنے کا حکم عطا فرمایادیا، یعنی جنت ہر لمحہ بڑھ رہی ہے، تاکہ اللہ کے بندے اس میں داخل ہو جائیں۔

اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا کہ ’’میرے بندوں کو میرے پاس لے آؤ‘‘ تو فرشتے جنتیوں کو باجماعت لے کر جائیں گے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے: ’’جنتی لوگ قیامت کے دن جنت کی طرف چلیں گے جماعت بن کر اور جب وہ جماعت بن کر چلیں گے اور جنت کے دروازے پر پہنچیں گے تو فرشتے ان سے کہیں گے تم پر سلامتی ہو‘‘ (سورۃ المؤمن۔۷۳) یعنی ان کو سلام بھی پیش کیا جائے گا۔ ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس داخل ہوں گے اور کہیں گے ’’تم پر سلامتی ہو‘‘۔ وہ کہیں گے کہ ’’تم نے دنیا میں رہتے ہوئے صبر کیا اور گناہوں سے اپنے نفس کو بچایا، دیکھو! تمھیں کتنا اچھا ٹھکانا اللہ تعالی نے عطا فرمایا‘‘۔

اللہ رب العزت اس دن جنتیوں کو بہت اکرام عطا فرمائے گا۔ حدیث پاک میں ہے کہ ’’جب جنتی جنت میں داخل ہوں گے تو فرشتے ان کو سلام کہیں گے اور وہ اپنے گھر کی طرف جائیں گے۔ پھر اللہ رب العزت ہر ہر جنتی مرد اور عورت کو سلام فرمائے گا‘‘۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کے گھر جائیں اور گھر کا مالک دروازے پر آپ کا استقبال کرے اور آپ کو سلام کرے۔

حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے دن جنتیوں کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی، جن میں سے اسی (۸۰) صفیں میری امت کی ہوں گی اور چالیس صفیں باقی تمام انبیاء کی امتوں کی ہوں گی۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام تین دن صحابہ کرام سے کنارہ کش رہے۔ حجرے میں بند رہتے، صرف نماز کے لئے باہر تشریف لاتے، پھر خاموشی سے واپس تشریف لے جاتے۔ تین دن تک صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بڑے حیران رہے، تیسرے دن جب آپﷺ صحابہ کرام سے آکر ملے تو انھوں نے عرض کیا ’’اے اللہ کے محبوب! آپ نے تین دن کیوں تنہائی اختیار فرمائی؟‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں اللہ تعالی سے دعائیں مانگ رہا تھا اور تین دن میں اللہ تعالی کے سامنے روتا رہا اور اپنے رب سے مانگتا رہا۔ میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ میری امت کے ستر ہزار بندوں کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل فرما دے گا اور ان میں سے ہر بندہ اپنے ساتھ ستر ہزار لوگوں کو جنت میں لے کر جائے گا‘‘۔

جس طرح دنیا کا دستور ہے کہ گھر میں اگر کوئی مہمان آتا ہے تو اس کے سامنے کچھ میٹھا، میوہ یا کوئی مشروب وغیرہ رکھ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جس وقت جنتی جنت میں داخل ہوں گے، اللہ رب العزت کی طرف سے ایک روٹی ان کو دی جائے گی۔ بعض روایات میں مچھلی یا اس کے کباب کا ذکر ہے۔ یعنی یہ چیزیں جنتی کے سامنے رکھ دی جائیں گی اور جب وہ اس کو کھائیں گے تو دنیا کے تمام کھانے اور پھلوں کے جتنے مزے تھے، ان کو اس ایک روٹی میں مل جائیں گے۔ (اقتباس)