حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ ایک روز بصرہ کی گلیوں سے گزر رہے تھے کہ ایک کنیز کو نہایت جاہ و جلال کے ساتھ جاتے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھا: ’’کیا تیرا مالک تجھے فروخت کرے گا؟‘‘۔ اس نے ہنس کر کہا: ’’اگر فروخت بھی کرے تو کیا تم جیسا مفلس مجھے خرید سکے گا!‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’ہاں، میں تو تجھ سے بھی اچھی کنیز خرید سکتا ہوں‘‘۔
کنیز کے آقا نے جب یہ بات سنی تو فرمایا: ’’اے شیخ! آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کنیز کو تم میرے ہاتھ بیچ دو‘‘۔ آقا نے کہا: ’’کیا آپ اس کی قیمت ادا کرسکیں گے؟‘‘۔ حضرت مالک بن دینار نے فرمایا: ’’میرے نزدیک تو اس کی قیمت کھجور کی دو گٹھلیاں ہیں‘‘۔
یہ سن کر سب ہنس پڑے اور پوچھنے لگے کہ ’’یہ قیمت آپ نے کیوں تجویز کی؟‘‘۔ فرمایا: ’’اس میں بہت سے عیب ہیں۔ جب یہ عطر نہیں لگاتی تو اس کے جسم سے بدبو آنے لگتی ہے۔ اگر منہ نہ صاف کرے تو منہ سے بو آنے لگتی ہے۔ اگر کنگھی نہ کرے اور سر میں تیل نہ ڈالے تو جوں پڑجائیں اور جب عمر زیادہ ہو جائے تو کسی کام کی نہ رہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس اس سے بھی کم قیمت کی ایک کنیز ہے اور وہ تمام باتوں میں اس کنیز سے فائق ہے۔ کافور، زعفران، جوہر اور نور سے اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ وہ اگر کسی کھارے پانی میں لعاب دہن ڈال دے تو شیریں ہو جائے۔ اپنی کلائی سورج کے سامنے کردے تو سورج ماند پڑ جائے۔ اگر تاریکی میں ظاہر ہو جائے تو اُجالا ہو جائے۔ اگر وہ آراستہ ہوکر دنیا کے سامنے آجائے تو ساری دنیا معطر ہو جائے۔ مشک و زعفران میں اس نے پرورش پائی ہے اور تسنیم کے پانی سے غذا دی گئی ہے۔ اب تم بتاؤ کہ ان میں سے کونسی کنیز خریدنے کے لائق ہے؟‘‘۔
آقا نے کہا: ’’جس کی آپ نے مدح و ثناء کی ہے، وہی طلب کرنے کی مستحق ہے‘‘۔ حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اس کی قیمت ہر وقت ہر شخص کے پاس موجود ہے۔ اس کی قیمت یہ ہے کہ رات کو ایک گھڑی کے لئے اخلاص کے ساتھ دو رکعت پڑھو، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کسی بھوکے کو کھانا کھلاؤ، راستے میں کوئی ضرر پہنچانے والی چیز ہو تو اُسے ہٹادو، بقدر ضرورت سامان پر اکتفا کرو اور قناعت اختیار کرو اور اس دنیا کی فکر میں نہ لگے رہو، جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کل تم جنت میں عیش کروگے‘‘۔ (مرسلہ)