جنت اور جہنم، آخرت کے دو مکان

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
اللہ رب العزت نے ہر انسان کے لئے آخرت کے دو مکان تیار کئے ہیں، ایک جنت میں اور دوسرا جہنم میں۔ اگر بندہ نیک اعمال کرے گا اور ایمان کے ساتھ دنیا سے جائے گا تو اللہ رب العزت اسے جنت کا مکان عطا فرمائے گا اور اگر یہ دنیا کے اندر ایمان سے محروم رہا یا ایمان تو لایا مگر غفلت کی وجہ سے گناہوں میں پڑا رہا اور بغیر توبہ کے مر گیا تو ان لوگوں کو جہنم کا مکان دیا جائے گا، جہنم وہ جگہ ہے، جسے اللہ تعالی نے مجرم و نافرمانوں کی سزا کے لئے بنایا ہے اور جنت وہ جگہ ہے، جس کو اللہ تعالی نے اپنے پیاروں کے لئے انعام کے طورپر بنایا ہے۔ اب یہ ہماری زندگی کی ترتیب ہے کہ ہم جنت کے راستے پر جا رہے ہیں یا جہنم کے راستے پر جا رہے ہیں؟۔

ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ’’اے دوست! تیرا اٹھنے والا ہر قدم تجھے جنت اور جہنم کے قریب کر رہا ہے۔ اگر اللہ رب العزت کے حکموں کو ماننے کے لئے اٹھ رہا ہے تو جنت کے قریب ہے اور اگر گناہوں کے لئے اٹھ رہا ہے تو جہنم کے قریب ہے‘‘۔ یعنی ہماری زندگی کی ترتیب سے پتہ چل سکتا ہے کہ ہم کس راسے پر چل رہے ہیں۔ دونوں راستے بہت واضح ہیں، ایک راستے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت والی زندگی کو اپنانا پڑتا ہے، باپردہ زندگی گزارنی ہوتی ہے، پاکدامنی کی زندگی گزارنی ہوتی ہے، سچی زندگی گزارنی ہوتی ہے، اچھے اخلاق والی زندگی گزارنی ہوتی ہے، یعنی ایسے لوگ جنت کے راستے پر چل رہے ہیں، جب کہ دوسری زندگی بے پردگی کی زندگی، بے حیائی کی زندگی، ٹی وی اور گانے بجانے میں مصروفیت کی زندگی، اِدھر اُدھر کے تعلقات جوڑنا اور آخرت سے بالکل غافل رہنا، دنیا میں اپنی خواہشات اور شہوات کی تکمیل کے لئے بدمست رہنا، یہ جہنمیوں کی زندگی ہے۔ اب یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہماری منزل کونسی ہونی چاہئے۔

اگر کسی عورت سے پوچھا جائے کہ دو مکان ہیں اور جو مکان خریدنے کے لئے آپ زور دے رہی ہیں ان میں سے ایک مکان میں گلشن ہیں، باغات ہیں، پھل پھول ہیں، نوکر چاکر ہیں، محل نما ہیرے موتی ہیں، خوشبوئیں ہیں، نہریں ہیں، ساتھ ہی والدین، خاوند، بچے اور بہن بھائی وغیرہ کو ساتھ لے جانے کا اختیار ہوگا۔ اللہ رب العزت اور انبیاء کرام کا دیدار ہوگا اور تمہاری ہر خواہش وہاں پوری ہوگی، مگر اس کی قیمت یہ ہے کہ تم اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کرو۔ جب کہ دوسرے مکان کی حالت یہ ہے کہ وہاں تاریکی ہوگی، جن بھوت سے زیادہ ڈراؤنے فرشتے ہوں گے، تنہائی ہوگی، نہ خاوند پاس، نہ بچے پاس، نہ ماں باپ پاس، بھوک پیاس ہوگی، پسینہ ہوگا، بجلی کڑکنے کی آواز ہوگی، تمہارا رنگ کالا ہوگا، آنکھیں نیلی ہوں گی، بدبودار لباس پہننا پڑے گا اور جسم کو آگ میں بھونا جائے گا۔ اس دوسرے مکان میں داخل ہونے کی شرط یہ ہے کہ تم اپنی خواہشات دنیا میں پوری کرلو، جی بھر کے اپنی حسرتیں مٹالو، پھر تمھیں اس مکان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنا پڑے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی عقلمند مرد یا عورت اس مکان میں جانا پسند نہیں کریں گے، بلکہ دونوں کی خواہش یہی ہوگی کہ جنت میں جائیں۔ معلوم ہوا کہ ہر انسان کا دل یہ چاہتا ہے کہ رب العالمین کا قرب حاصل کرکے جنت کا مکان مل جائے اور اپنی چاہتیں وہاں جاکر پوری کرلی جائیں۔

زندگی میں ہمیں آخرت کو سامنے رکھ کر اپنی زندگی کی ترتیب بنانی چاہئے، کیونکہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کا حوصلہ ہم میں سے کسی شخص کے اندر نہیں ہے۔ ہم تو اتنے ناز و نعم میں پلے بڑھے ہیں کہ ہمیں دھوپ کی گرمی تک برداشت نہیں ہوتی، تو پھر ہم جہنم کی گرمی کس طرح برداشت کرسکیں گے۔ ہم گرمی کے موسم میں باہر سے گھر میں آتے ہیں تو ہمیں جب تک ٹھنڈا پانی نہ ملے یا کوئی اور مشروب نہ ملے، اس وقت تک کچھ کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا، جب کہ جہنم کے اندر تو گرما گرم مشروبات پلائے جائیں گے۔ جب ہم دنیا میں دو آدمیوں کے سامنے اپنی ذلت و رسوائی برداشت نہیں کرسکتے، تو بروز قیامت تمام انسانوں کے سامنے ذلت و رسوائی کس طرح برداشت کریں گے؟۔ لہذا ہمیں اللہ رب العزت سے جنت طلب کرنا چاہئے اور جہنم سے اللہ رب العزت کی پناہ مانگنی چاہئے۔

جب ہم گناہوں سے باقاعدہ توبہ کرلیں گے تو اللہ رب العزت کے ساتھ ہماری صلح ہو جائے گی اور پروردگار عالم تمام پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے گا اور آئندہ ہمارے اعمال کا اجر بڑھا دے گا۔ جس طرح انسان تنہائیوں میں چھپ چھپ کر گناہ کرتا ہے، اس کو چاہئے کہ اسی طرح تنہائیوں میں بیٹھ کر اپنے گناہوں کو یاد کرے اور چھپ چھپ کر اللہ کے سامنے روئے اور معافی طلبگار ہو،

کیونکہ جب تک انسان گناہوں کو نہیں چھوڑے گا، اس وقت تک اس کو اللہ تعالی کا قرب حاصل نہیں ہوگا، لہذا گناہوں سے توبہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ عورتیں اور مرد، جو اپنی زندگی کو سب گناہوں سے بچائیں اور سچی معافی طلب کرکے اپنے رب کو راضی کرلیں۔
دوزخ کو اللہ رب العزت نے نافرمانوں کے لئے بنایا ہے۔ احادیث میں اس کی بڑی تفصیلات ملتی ہیں۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ دوزخ جب سانس لے گی تو اس کا سانس ایسا ہوگا کہ دھواں اٹھے گا، شعلے اٹھیں گے اور وہ شعلے مجرموں کے سروں پر آکر گریں گے۔ اس کے اندر اُبال آئے گا۔ پھر وہ اللہ رب العزت کے سامنے عرض کرے گی ’’سب تعریف اللہ کے لئے ہے، جس نے مجھے نافرمانوں سے بدلہ لینے کے لئے پیدا کیا‘‘۔ پھر کہے گی ’’اے اللہ! آج تیرے مجرم میرے سامنے ہیں، مجھے اجازت دے کہ میں ان مجرموں سے نمٹ لوں‘‘۔ اس وقت لوگوں کے دل دہل جائیں گے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے گا، انسانوں کے دل حلق تک آجائیں گے، اس وقت کوئی اپنا نہیں ہوگا، ساری رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی۔ (اقتباس)