جنتی عورتوں کی خصوصیات

مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی
اللہ رب العزت نے فرمایا ’’یہ (جنتی عورتیں) اپنے شوہروں کی شیدائی ہوں گی‘‘۔ جنتی افراد کے دلوں سے اللہ تعالی رنجش اور کینہ نکال دے گا، وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ اٹھے بیٹھیں گے۔ چنانچہ جنتی عورتوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ’’یہ اپنے شوہروں سے عشق کرنے والی ہوں گی‘‘۔ دنیا کے اندر تو یہ شوہروں سے بے وفائی بھی کرجاتی ہیں، دنیا میں تو ناراضگیوں کے ساتھ فقط وقت گزارنے کے لئے رہتی ہیں، مگر جنت کا معاملہ کچھ اور ہوگا۔ اللہ تعالی میاں بیوی کے درمیان ایسی محبت پیدا فرمادے گا کہ یہ عورتیں اپنے خاوند کی شیدائی ہوں گی، ان سے عشق کرنے والی ہوں گی، نہ ان کو حیض و نفاس ہوگا اور نہ حمل ہوگا۔ اللہ رب العزت ان کو وہاں ملکہ کی مانند زندگی عطا فرمائے گا، جو ان کے دل کی تمنا اور خواہش ہوگی۔ جنتی عورتوں کے حسن کو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں زیادہ کھول کر اس لئے بیان نہیں فرمایا، کیونکہ وہ جیسا خود چاہیں گی انھیں ویسا ہی بنادے گا، یعنی ان کو وہ حسن ملنا ہے جو خود ان کو پسند ہو، اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا ’’تمھیں وہ ملے گا، جو تمہارا دل چاہے گا‘‘۔ عورتوں کی یہ فطرت ہے کہ یہ کسی خوبصورت چیز کو دیکھتی ہیں تو اسے اپنانے کی کوشش کرتی ہیں۔ چوں کہ دنیا میں یہ ان کی چاہت ہوتی ہے، لہذا اللہ تعالی نے جنت میں ان کو اپنی مرضی کا حسن عطا کرنے کی بجائے ان (خواتین) کی مرضی پر یہ بات چھوڑدی۔ چنانچہ ان کا دل چاہے گا کہ ایسا میری آنکھ کا سرمہ ہو تو وہ ویسا ہی ہو جائے گا۔ ایسی میری پلکیں ہوں تو پلکیں ویسی ہی ہو جائیں گی۔ ایسے میرے بال ہوں، وہ ویسے ہی ہو جائیں گے۔ ایسی میں پوشاک پہنوں گی، ویسی ہی پوشاک عطا ہو جائے گی، یعنی وہ دل میں سوچتی چلی جائیں گی اور ان کی ہر چیز ویسی ہی بنتی چلی جائے گی۔ غور فرمائیے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو کتنا بڑا اعزاز عطا فرمایا ہے کہ ہر بندے کو اس کی مرضی کے مطابق حسن ملے گا۔ چوں کہ جنتی عورت کے حسن کی کوئی انتہا نہیں تھی، اسی لئے اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس کا تذکرہ کرنے کی بجائے یہ صرف فرما دیا کہ ’’ان کو ہم وہ عطا کریں گے، جو ان کا جی چاہے گا‘‘۔

جب جنتی لوگ جنت میں جائیں گے تو پہلی نظر جس مخلوق پر ڈالیں گے، یعنی حوروں اور غلمان کو دیکھیں گے تو ان کے حسن سے یہ اتنے متاثر ہوں گے کہ یہ ستر سال تک ان کے حسن و جمال کو دیکھتے رہ جائیں گے، یعنی ان کو پتہ نہیں چلے گا کہ اتنا وقت گزر گیا۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’جب جنتیوںکو اللہ تعالی کا دیدار نصیب ہوگا تو ان پر نور کی بارش ہوگی‘‘ اور جب یہ نور کی بارش جنتیوں کے چہروں پر ہوگی تو ان کے چہروں میں چمک پیدا ہوگی اور ان کے چہرے مزید خوبصورت ہو جائیں گے۔ یعنی دیدار باری تعالی کے بعد جنتیوں کا حسن اتنا بڑھ جائے گا کہ حور و غلمان ٹکٹکی باندھ کر اپنے آقاؤں کے حسن و جمال کو دیکھتے رہ جائیں گے۔

دیدار باری تعالی کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ اللہ رب العزت جنتیوں سے فرمائے گا کہ ’’اے جنتیو! تمھیں کس چیز کی کمی ہے؟‘‘۔ جنتی کہیں گے ’’اے اللہ! ہر چیز ہمارے پاس موجود ہے‘‘۔ اللہ تعالی فرمائے گا ’’تم اپنے علماء سے جاکر پوچھو‘‘۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ لوگوں کو جس طرح دنیا میں علماء کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح جنت میں بھی علماء کی ضرورت ہوگی۔ جنتی لوگ اپنے اپنے علماء کے پاس جائیں گے اور پوچھیں گے کہ ’’اللہ تعالی نے ہم سے پوچھا ہے کہ تمھیں کسی اور چیز کی ضرورت ہے؟ جب کہ ہمارے پاس ہر چیز ہے، ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے‘‘۔ تب علماء بتائیں گے کہ ’’اللہ تعالی نے وعدہ کیا تھا کہ میں تمھیں اپنا دیدار کراؤں گا، جب کہ ابھی تک اللہ تعالی کا دیدار نہیں نصیب ہوا، یہ چیز ابھی باقی ہے‘‘۔ تب جنتیوں کو پتہ چلے گا اور وہ سب عرض کریں گے کہ ’’اے اللہ! ہمیں جنت کی ہر نعمت اچھی لگی، مگر اے رب! ہمیں اپنا دیدار بھی نصیب فرما‘‘۔ تب اللہ تعالی فرمائے گا ’’اے میرے بندو! میں تمھیں جنت عدن میں اپنا دیدار کراؤں گا‘‘۔ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اپنی امت کو لے کر نکلیں گے، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی امت کو لے کر نکلیں گے، پھر حضرت موسی علیہ السلام، پھر حضرت عیسی علیہ السلام۔ پھر یہ سب مل کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محل کی طرف آئیں گے، پھر آپﷺ اپنی امت کو لے کر نکلیں گے اور یہ سب جنتی جنت عدن کی طرف روانہ ہوں گے۔ ان کے ارد گرد فرشتے ہوں گے اور یہ سب کے سب جنت عدن میں پہنچیں گے۔

حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت نے انبیاء کے لئے نور کے منبر بنائے ہیں، لہذا انبیاء کرام نور کے منبروں پر بیٹھ جائیں گے۔ صدیقین کے لئے نور کے تخت بنائے ہیں، لہذا صدیقین اس تخت پر بیٹھیں گے۔ شہدا کے لئے اللہ تعالی نے نور کی کرسیاں بنائیں ہیں، لہذا وہ نور کی کرسیوں پر بیٹھیں گے۔ اسی طرح صالحین کے لئے اللہ رب العزت نے مشک کے گدے بنائے ہیں، لہذا وہ ان گدوں پر بیٹھیں گے۔ جب سب اس مقام پر اکٹھا ہو جائیں گے تو اللہ تعالی ان سب کی ضیافت فرمائے گا۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ سب سے کم درجہ والا جو جنتی ہوگا، اس کے سامنے جو کھانا رکھا جائے گا، وہ ستر ہزار پلیٹوں میں سجا ہوگا۔ سوچئے جب سب سے کم درجہ والے جنتی کے سامنے ستر ہزار پلیٹیں سجی ہوں گی تو دیگر جنتیوں کے سامنے کیا کچھ ہوگا۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے جنتیوں کا اکرام ہوگا اور ہر لقمہ کا مزہ جدا جدا ہوگا۔ بعد ضیافت اللہ تعالی اپنے بندوں کو خلعت (پوشاک) عطا فرمائے گا اور فرمائے گا کہ ’’یہ میری محبت کی پوشاک ہے، تم نے دنیا میں مجھے خوش کردیا، لہذا آج میں تمھیں یہاں خوش کروں گا‘‘۔ پھر اللہ تعالی فرشتوں کو حکم دے گا کہ ’’میرے بندوں کو خلعت عطا کرو‘‘۔ (اقتباس)