جنتا پریوار کے انضمام کی تیاری

پلٹ کر جھپٹنا‘ جھپٹ کر پلٹنا
لہوگرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
جنتا پریوار کے انضمام کی تیاری
گذشتہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے ملک میںنئی سیاسی صف بندیوں کی راہ ہموار کردی تھی ۔ کئی جماعتوں نے بی جے پی کو اقتدار ملنے کے بعد اپنے لئے مستقبل میں پریشانی محسوس کی اور انہوں نے نئی حکمت تیار کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔ انتخابات میں کانگریس پارٹی کا جو برا حشر ہوا ہے وہ اس کیلئے خود لمحہ فکر ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے نائب صدر راہول گاندھی فی الحال سیاسی تعطیلات پر ہیں اور وہ پارٹی کی صدارت سنبھالنے سے پہلے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی کا احیاء عمل میں لانے اور اس میں نئی جان ڈالنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں کمیونسٹ جماعتوں کا مستقبل بھی کمزور نظر آنے لگا ہے اور اب کمیونسٹ جماعتیں بھی اپنے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنا چاہتی ہیں۔ ان جماعتوں کو اپنی پالیسیوں اور پروگراموں میں تبدیلی لانے اور انہیں مزید عوام دوست بنانے کی ضرورت ہے ۔ کمیونسٹ جماعتوں کو بھی اس کا شائد احساس ہونے لگا ہے ۔ اسی طرح جنتادل کی ٹوٹ پھوٹ سے وجود میں آنے والی مختلف جماعتیں بھی ابتداء میں عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھیں لیکن اب وہ بھی مسائل کا شکار ہوگئی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں ان جماعتوں کو جس طرح کی ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا تھا اس سے ان کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔ انہیں یہ احساس ہونے لگا ہے کہ وہ متحد ہوکر ہی شائد اپنا مستقبل بچا سکیں ۔ اسی لئے ان جماعتوں نے جنتادل سے علیحدہ ہوکر قائم ہونے والی تمام جماعتوں کو دوبارہ ایک بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب انضمام کو تقریبا قطعیت دیدی گئی ہے ۔ یہ قیاس کیا جارہا ہے کہ آئندہ چند دنوں میں جنتادل پریوار کے انضمام کا باضابطہ اعلان کردیا جائیگا ۔ جنتاپریوار کی جماعتوںنے اپنے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ اتحاد موثر ثابت ہوا اور یہ دوبارہ عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے ہندوستان میں جمہوری سیاست کو بھی ایک نیا رخ مل سکتا ہے ۔ جنتاپریوار کے اتحاد کیلئے چیف منسٹر بہار نتیش کمار اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ مائم سنگھ یادو کی کوششیں سب سے زیادہ ہیں کیونکہ بی جے پی سے سب سے زیادہ مسائل فی الحال ان دونوں جماعتوں کیلئے پیدا ہوسکتے ہیں۔
جنتا پریوار کے اتحاد کے مسئلہ پر گذشتہ دو ماہ سے جو تبادلہ خیال اور مشاورت کا عمل چل رہا تھا اب وہ اختتامی مراحل میں ہے اور اس اتحاد کو کسی بھی وقت قطعیت دی جاسکتی ہے ۔ تاہم ان جماعتوں کو اس بات پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ صرف اپنی سیاسی بقا اور مستقبل پر توجہ دینے کی بجائے ملک میں جمہوری نظام کے استحکام اور ملک کو فرقہ پرست طاقتوں کے اقتدار سے بچانے کو اولین ترجیح دیں۔ جب تک یہ جماعتیں اپنے مفادات کیلئے اتحاد کرتی رہیں گی اس وقت تک اس طرح کے اتحاد وقتی طور پر کچھ کارکرد ثابت ہوسکتے ہیں لیکن اس سے ملک کی سیاست پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں ہوسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ جماعتیں ملک اور ملک کے عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اتحاد کریں ۔ ان کا مطمع نظر یہ ہونا چاہئے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی اور فاشسٹ طاقتوں کے عروج کو روکا جاسکے ۔ ملک کے عوام کے سامنے ان طاقتوں کے حقیقی عزائم کو پیش کرتے ہوئے انہیں متنبہ کیا جائے ۔ ملک میں نفرت کی فضا کو مزید پروان چڑھنے سے روکنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ ملک کو بیرونی خطرات کے ساتھ ساتھ داخلی مسائل سے بچانے پر بھی ان جماعتوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ جب تک ایسا نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس طرح کا اتحاد ملک کے حق میں مفید نہیں کہا جاسکتا ۔
اب جبکہ ان جماعتوں کے اتحاد کو قطعیت دی جا رہی ہے ان تمام جماعتوں کے قائدین کو اپنی شخصی انا کو بھی بالائے طاق رکھنا ہوگا ۔ انہیں وسیع تر سماجی و قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکمت علی تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان قائدین میں شخصی مفاد پرستی ہی تھی جس کی وجہ سے جنتادل میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی تھی ۔ ہر لیڈر نے اپنے لئے علیحدہ شناخت اور علیحدہ جماعت قائم کرنے میں اپنا مفاد دیکھا تھا جس کی وجہ سے یہ جماعت جو کبھی کانگریس اور بی جے پی کا متبادل بن کر ابھر رہی تھی خود اپنی شناخت بچانے کی جدوجہد کا شکار ہوگئی تھی ۔ اب جبکہ یہ جماعتیں پھر ایک ہو رہی ہیں تو ان کے قائدین کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور شخصی انا اور مفاد پرستی کی بجائے قومی اور عوامی مفاد کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔