اناکو اور ہوس اقتدار دور کرو
جو ایسا ہو تو ممکن ہے اتحاد میاں
جنتادل ‘ جماعتوں کا اتحاد
ملک میں انتخابات ختم ہوچکے ہیں۔ مرکز میں نئی حکومت تشکیل پا رہی ہے ۔ بی جے پی کو انتخابات میں جو کامیابی ملی ہے اس سے اس کے حوصلے بہت بلند ہوگئے ہیں ۔ نریندر مودی وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے مختلف جماعتیں اور اتحاد ‘ بی جے پی کی تائید کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خاص طور پر جو جماعتیں اب تک یو پی اے کا حصہ نہیں تھیں وہ اس میں آگے ہیں اور بعض سابق میں یو پی اے میں شامل رہ چکی ہیں۔ انتخابی نتائج کو سامنے آئے ہیں وہ سب کیلئے حیرت کا باعث رہے ہیں ۔ بہار میں نتائج کو دیکھتے ہوئے چیف منسٹر و جنتادل یو کے لیڈر نتیش کمار نے وزارت اعلی کے عہدہ سے استعفی پیش کردیا ہے ۔ انہوں نے ریاست میں تازہ انتخابات کی سفارش بھی کی تھی تاہم پارٹی نے جیتن رام مانجھی کو چیف منسٹر کی کرسی دیدی ۔ اب وہاں سکیولر اتحاد کے نام پر راشٹریہ جنتادل اور جنتادل یو کے مابین اشتراک ہو رہا ہے ۔ یہ دونوں جماعتیں ریاست میں ایک دوسرے سے شدت کے ساتھ مقابلہ کر تی رہی ہیں۔ بی جے پی وہاں اپنا زیادہ کچھ اثر نہیں دکھا پار ہی تھی لیکن جنتادل یو نے اس کو حکومت میں شامل کیا تھا اور اب خود بی جے پی سے جنتادل یو کو خطرہ محسوس ہونے لگا ہے ۔شائد یہی وجہ ہے کہ سکیولر ازم کے نام پر جنتادل یو اور راشٹریہ جنتادل کے مابین اتحاد کیلئے حالات سازگار ہوتے جا رہے ہیں۔ بہار میں جے ڈی یو حکومت کیلئے راشٹریہ جنتادل نے باہر سے تائید فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ یہ فیصلہ حیرت انگیز کہا جاسکتا ہے کیونکہ بہار میں جے ڈی یو اور آر جے ڈی ہی اب تک اقتدار کے دعویدار رہے ہیں۔ رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی ہمیشہ ہی اقتدار کی طلب میں برسر اقتدار اتحاد کے ساتھ رہی ہے ۔ اب رام ولاس پاسوان مودی کی قیادت میں این ڈی اے کا حصہ ہیں۔ سیاسی جماعتوں کیلئے ایک دوسرے کی مخالفت یا ایک دوسرے سے اتحاد کرنا اور ایک سے دوسرے گروپ میں شامل ہوجانا ‘ حکومتوں کی تائید کرنا یا حکومتوں کی تائید سے دستبرداری اختیار کرلینا ایک مسلسل عمل ہے اور وہ ان کی سیاست کا حصہ ہے لیکن جنتادل جماعتوں میں اتحاد توقع کے خلاف کہا جاسکتا ہے ۔
آج ملک کی مختلف ریاستوں میں جنتادل کی جو جماعتیں ہیں وہ در اصل ایک جماعت کے ٹکڑے ہیں جو ماضی میں اقتدار تک بھی پہونچ گئی تھی ۔ وی پی سنگھ کے دور میں جنتادل نے سارے ہندوستان میں اپنے وجود کو منوالیا تھا اور وہ کانگریس کے بعد دوسری سب سے بڑی جماعت بن گئی تھی ۔ جنتادل کو بہار میں ‘ اتر پردیش میں ‘ کرناٹک میں اور اوڈیشہ میں اقتدار حاصل ہوگیا تھا اور دوسری ریاستوں میں بھی اس کا اثر دکھائی دے رہا تھا لیکن جنتادل قائدین کی موقع پرستی اور اقتدار کی لالچ نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا اور ان کا شیرازہ بکھرنا بی جے پی کے حق میں بہتر ثابت ہوا اور اس نے ملک میں کانگریس کے متبادل کے طور پر اپنی پہچان بنالی اور اپنے نظریاتی وجود کو منوالیا ہے ۔ 1989 میں جب کانگریس کے خلاف جنتادل نے انتخابی میدان میں قسمت آزمائی کی تھی اس وقت بی جے پی کے صرف دو ارکان پارلیمنٹ تھے اور جنتادل سے اتحاد کے نتیجہ میں اسے 89 نشستوں پر کامیابی ملی تھی ۔ جنتادل نے بی جے پی کو فروغ کا موقع فراہم کیا اور خود بکھر کر رہ گئی ۔ اب بہار میں بھی تقریبا اسی صورتحال کا اعادہ ہو رہا ہے ۔ جے ڈی یو نے اپنے اقتدار کیلئے بی جے پی سے مفاہمت کی اور اسے جگہ فراہم کی اب خود جنتا دل یو کیلئے مشکلات پیدا ہوتی جا رہی ہیں اور نتیش کمار کو چیف منسٹری سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی ہے ۔ یہ صورتحال صرف جنتادل کے مختلف گروپس کے آپسی انتشار کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے اور اس کیلئے خود کو سکیولر قرار دے کر اقتدار کی ہوس رکھنے والے قائدین کو ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے ۔
جس طرح سے جنتادل کے دو سابقہ گروپس بہار میں اب ایک دوسرے کے پاس آر ہے ہیں اسی طرح اگر سارے ملک میں جنتادل کو دوبارہ متحد اور متحرک کیا جائے تو اس کی سیاسی قسمت کو ایک بار پھر بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ کرناٹک ‘ اتر پردیش ‘ بہار اور اوڈیشہ میں اقتدار حاصل کرنے والی جنتادل میں جب ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تو سوائے اوڈیشہ کے کسی اور ریاست میں اسے مستحکم مقام حاصل نہیں ہوسکا ہے ۔ اوڈیشہ میں بیجو جنتادل آج بھی اقتدار پر ہے اور وہاں اس نے بتادیا ہے کہ عوام کی توقعات کے مطابق کام کرتے ہوئے ہر لہر کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ جو صورتحال آج مجبوری میں بہار میں پیدا ہوئی ہے اگر اس سے ایک نئی سوچ اور فکر حاصل کرتے ہوئے جنتادل گروپس میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں کی جائیں تو یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ جو مقام اس نے سابق میں اپنی غلطیوں سے کھویا تھا اسے دوبارہ مل جائے ۔