٭ جناب زاہد علی خان کے اعتراف خدمات و تہنیت کے جلسہ میں معززین شہر، صحافیوں، ادیب، شعراء اور سماجی جہدکاروں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
٭ اُردو ہال حمایت نگر سامعین کی تعداد کے باعث تنگ دامنی کا شکوہ کررہا تھا۔
٭ جناب زاہد علی خاں جیسے ہی اُردو ہال کے باب الداخلہ میں داخل ہوئے سنٹرل پبلک اسکول کی طالبات نے بیانڈ بجاکر اُن کا والہانہ استقبال کیا اور اُنھیں جلسہ گاہ کی طرف لے جایا گیا۔ وہ جیسے ہی شہ نشین پر پہنچے زبردست تالیوں کی گونج میں سامعین نے اُن کا استقبال کیا۔
٭ جناب زاہد علی خاں کو مختلف تنظیموں کی جانب سے سَمان کیا گیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے اُنھیں مخملی شایہ اور شاہی دستار پہنائی۔
٭ فولس پیراڈائز کلچرل اینڈ ویلفیر سوسائٹی نے اُنھیں ’’فخر صحافت‘‘ کا خطاب پیش کیا۔
٭ جناب قمرالدین نے زاہد علی خاں صاحب کو سپاس نامہ پیش کیا۔
٭ صدر جلسہ کنگ شک ناگ اور مہمان خصوصی پرشانت چنتالہ نے اُنھیں یادگار مومنٹوز پیش کئے۔
٭ محفل خواتین، تنظیم بنت حرم، فائن آرٹس اکیڈیمی، انجمن ترقی اُردو، دبستان جلیل اور کئی تنظیموں کی جانب سے جناب زاہد علی خاں کی گلپوشی اور شال پوشی کی گئی۔
٭ اس موقع پر بعض شعراء نے زاہد علی خاں کی شخصیت اور کارنامو پر منتخبہ تہنیتی اشعار تالیوں کی گونج میں پیش کئے۔
٭ مقررین نے اس تاثر کا اظہار کیاکہ مسلم معاشرہ کی اصلاح اور ترقی کے لئے ہر شہر میں زاہد علی خاں جیسی شخصیت کی آج ضرورت ہے۔
٭ اس موقع پر جناب زاہد علی خاں نے کہاکہ ریاستی حکومت کو چاہئے کہ وہ انجمن ترقی اُردو اور ادارہ ادبیات اُردو کو سالانہ 5 لاکھ روپئے کی امداد جاری کرے۔ اسی طرح اُردو گھر کو بھی سالانہ امداد منظور کی جانی چاہئے۔
٭ ماسٹر شفیع نے سنہری ہار زاہد صاحب کو پہناتے ہوئے کہاکہ افن کے سنہری کارنامے حیدرآباد کی تاریخ کا ایک سنہرا باب بن گئے ہیں۔