جمہوریت کے تقاضے

میرے افکار کی قدریں یوں ہی فرسودہ سہی
ساتھ چلنا ہو اگر میرے اقدار کی تحریم کرو
جمہوریت کے تقاضے
جمہوریت کا تقاضہ یہی ہیکہ ملک کے ہر شہری کو اس کا حق دیا جائے اور جمہوری اقدار کو پامال کرنے سے گریز کیا جائے مگر حالیہ برسوں میں ملک کے اعلیٰ ترین جمہوری اداروں میں خاص کر پارلیمنٹ میں جمہوری طور پر منتخب ارکان کی ہنگامہ آرائی اور شوروغل کے مناظر نے ہماری جمہوریت کے اصولوں اور اقدار کو نقصان پہنچایا ہے۔ جمہوریت میں تمام کے ساتھ انصاف، رشوت سے پاک سرکاری نظم و نسق کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے اپنے یوم آزادی خطاب میں جمہوریت کو مستحکم بنانے پر زور دیا ہے لیکن پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ہمارے منتخب ارکان نے اپنے طرزعمل اور کردار کے ذریعہ جمہوریت کی جڑوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان میں ایک طاقتور اور تندرست جمہوریت کی موجودگی کے باوجود چند محصوص طاقتیں عوام الناس پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو اس پر ایوان پارلیمنٹ میں زبردست ہنگامہ ہوتا ہے۔ جمہوریت کی دہائی دینے والے سیاستدانوں کا ہی یہ گھناونا کاروبار ہے کہ وہ اکثر اپنے داغدار دامن و کردار کو چھپا کر اقتدار و ایوان تک پہنچتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے پہلی مرتبہ لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزادی کی تقریر کی۔ یہ تقریر کیا ہے اور کیسی تھی یہ عوام الناس نے سنی اور سمجھی ہے۔ اس کے باوجود حکمراں طبقہ کی حمایت کرنے والا ٹولہ مودی کی کئی خرابیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرکے پیش کیا ہے۔ یوم آزادی کے موقع پر سیکولر ہندوستان کے سیکولر شہریوں کے ذہنوں میں مودی حکومت کے تعلق سے کئی ایک سوال اٹھے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم سوال ملک کی اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ اور جان و مال کی حفاظت کا مسئلہ بھی نازک ہے۔ خاص کر ایسے وقت میں جبکہ مرکز میں فرقہ پرست طاقتوں کا اقتدار ہے اور کٹر ہندو پرستانہ ذہن رکھنے والے لیڈر کو وزیراعظم بنایا گیا ہے تو ہندوستان کی اقلیتیں خاص کر سیکولر مزاج کے شہری تشویش میں مبتلاء رہیں گے۔ ماہرین نے وزیراعظم کی یوم آزادی تقریر میں کچھ نکات کی نشاندہی کی ہے اور کہا ہیکہ مودی کا پیان انڈیا منصوبہ و نظریہ ملک کی ترقی و سلامتی کیلئے ہے جس میں شمالی علاقوں کی ترقی بھی شامل ہے۔ تلخ حقیقت تو یہ ہیکہ مودی کو اقتدار ملنے کے دو ماہ کے اندر ملک میں 600 سے زائد فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے۔ ان میں سے صرف اترپردیش میں 56 فسادات برپا کئے گئے۔ مودی نے اپنی تقریر میں فسادات کو کس طرح روکا جائے گا سے متعلق کوئی فارمولہ پیش نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ 10 سال تک تشدد ترک کردیا جائے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہیکہ 10 سال بعد ہندوستان کو تشدد کی نذر کیا جائے گا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو لاحق خطرات کو دور کرنے اور مسلمانوں کے پسماندہ خاندانوں کی فلاح و بہبود کیلئے بھی مودی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ واضح نہیں ہے۔ اگرچیکہ سچر کمیٹی نے ملک کے مسلمانوں کی معاشی و سماجی حالت پر تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے، جس میں کہا گیا ہیکہ ہندوستانی مسلمانوں کی حالت درج فہرست ذاتوں اور قبائیلیوں سے زیادہ ابتر ہے۔ مودی حکومت نے ان کی معاشی و سماجی زندگی کو بہتر بنانے کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا۔ بظاہر مودی حکومت یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ اس نے عوام کو اپنی کارکردگی سے واقف کرانے کا بیڑہ اٹھایا ہے اور مودی اپنی حکومت کو درست پٹری پر چلارہے ہیں لیکن عوام الناس کی بڑی تعداد انتخابی مہم کے دوران کئے گئے مودی کے وعدوں کو کب اور کیسے پورا کیا جائے گا دیکھنے کی منتظر ہے۔ ریالیوں کے دوران انہوں نے ملک میں خواتین کی سلامتی کو یقینی کا وعدہ کیا تھا لیکن مودی حکومت کے 3 ماہ کی کارکردگی کے دوران خواتین کے خلاف بے تحاشہ مظالم اور اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا۔ خاطیوں کو سزاء بھی نہیں ملی۔ جب ملزمین آزاد گھومتے ہیں تو یہی اندازہ ہوتا ہیکہ خواتین ہنوز غیرمحفوظ ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو اپنی حکومت کی کارکردگی کیلئے 3 اہم شعبوں پر توجہ دینی ہوگی خاص کر پیداوار کے نظریہ کو تقویت دینا، معاشی حکمت عملیاں بنانا اور لاکھوں غریبوں کو فاقہ کشی سے نجات دلانا ہے۔ مودی نے ہندوستان کے مسائل کو سمجھا ہے تو ان کی یکسوئی کیلئے ان کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے۔ مجموعی طور پر وہ ہندوستان کو نئے سیاسی ڈھانچہ کی بنیاد پر بدلتی دنیا کا علمبردار بنانے کی کوشش کرنے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کئی مسائل پر لب سڑک کی تقریروں میں اظہارخیال ہے لیکن کوئی بھی سیاستداں صاف ستھرا کردار اور غیرمتعصبانہ نظریہ نہیں رکھتا۔ وہ ایک اچھی حکومت دینے کی کوشش بھی نہیں کرسکتا۔ یہ امر تو طئے ہیکہ نریندر مودی اور سنگھ پریوار ہندوستان کے سیکولر کردار کو مضبوط بنانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ گڈ گورننس کی طرف توجہ مبذول کروانے والے بھی ان دنوں ان کے عتاب کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ملک کی جمہوریت کو فرقہ پرستی کی مداخلت کی وجہ سے پامال کیا جارہا ہے تو پارلیمانی نظام جمہوریت کی تباہی پر کانپ اٹھے گا۔
تاریخی قلعہ گولکنڈہ میں پرچم کشائی
نئی ریاست تلنگانہ میں پہلی یوم آزادی تقریب کو تاریخی قلعہ گولکنڈہ کی فصیل سے پرچم کشائی کے ذریعہ منایا گیا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے گذشتہ پانچ دہوں کی قدیم روایت سے ہٹ کر یوم آزادی تقریب کو پریڈ گراونڈ سکندرآباد کے بجائے قلعہ گولکنڈہ میں منعقد کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ان کی تقریر میں تلنگانہ کی تاریخ اور تہذیب کی جھلک دیکھی گئی اور تلنگانہ میں قلعہ گولکنڈہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ سکندرآباد کے پریڈ گراونڈ پر 1956 سے یوم آزادی تقاریب منعقد ہورہی تھیں لیکن چیف منسٹر کے سی آر نے تاریخی قلعہ کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی ایک قابل تحسین کوشش کی ہے۔ قلعہ گولکنڈہ کی عالمی سطح پر ایک منفرد اہمیت ہے۔ اس کے مقبول کوہ نور ہیرے نے ہی روم، انگلینڈ اور ترکی سے تعلق رکھنے والے ہیروں کے تاجروں کے بشمول دنیا بھر کے ہیروں کے تاجروں کے لئے یہ قلعہ عالمی باب الداخلہ بن گیا۔ قلعہ کی فصیل سے آزادی کا جشن مناتے ہوئے چندرشیکھر راؤ نے اپنی حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں کا جس پرعزم طریقہ سے اعلان کیا ہے اسی جذبہ کے ساتھ ان کو روبہ عمل لانے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ کے عوام کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے حکومت کی معاشی کارکردگی کو مؤثر بنانا ضروری ہے۔ جہاں تک عوام کے معاشی مسائل کا تعلق ہے ان مسائل کی شدت میںاب تک کوئی نمایاں کمی نظر نہیں آئی۔ لہٰذا چیف منسٹر کو معاشی بہتری کے فوائد عام آدمی تک پوری طرح منتقل کرنے کیلئے قلعہ گولکنڈہ کی فصیل سے ظاہر کردہ پالیسیوں کو دیانتداری سے روبہ عمل لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔