کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
جموں و کشمیر کی صورتحال میں ابتری
ملک کی سرحدی اور حساس نوعیت کی حامل ریاست جموں و کشمیر میں گذشتہ کچھ عرصہ سے حالات میں مسلسل ابتری پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ کہیں نہ کہیں کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتا ہے جس کے نتیجہ میں حالات بگڑ جاتے ہیںاور امن و سکون درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے ۔ جموں و کشمیر کو ملک کی انتہائی حساس ریاست بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ پاکستان کی سرحد سے ملتی ہے ۔ یہاں طویل عرصہ تک عسکریت پسندی اور تخریب کاری کی وجہ سے حالات متاثر رہے اور ساری ریاست میں ایک طرح سے عملا ہنگامی حالات نافذ رہے ۔ یہاں صدر راج رہا اور ملک کی سکیوریٹی فورسیس نے کافی جدوجہد اور قربانیوں کے بعد تخریب کاری اور عسکریت پسندی کو ختم کیا ۔ ریاست میں جب طویل عرصہ کے بعد انتخابات ہوئے اور پی ڈی پی کی قیادت میں کانگریس کی تائید سے 2002 میں مخلوط حکومت تشکیل دی گئی تھی اس وقت سے یہ امیدیں پیدا ہوگئی تھیں کہ ریاست میں تخریب کاری اور عسکریت پسندی ختم ہوتی جا رہی ہے اور ریاست میں عام حالات بحال ہونے لگے ہیں۔ دھیرے دھیرے ریاست میں حالات بہتر بھی ہوئے تھے ۔ریاست میں سیاحتی سرگرمیوںکو دوبارہ تقویت حاصل ہوئی تھی ۔ ملک کے گوشے گوشے سے لوگ دوبارہ وادی کشمیر کا رخ کرنے لگے تھے اور سیر و تفریح کیلئے وہاں جانے لگے تھے ۔ تجارتی سرگرمیوں میں بھی حالانکہ زیادہ تیزی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان میں بھی معمولی نوعیت کی بہتری ضرور آئی تھی ۔ ریاست سے تعلق رکھنے والے عوام کی تعلیم کے تئیں دلچسپیوں میں اضافہ ہوا تھا اور ریاست کے نوجوان تعلیم کے شعبہ میں نمایاں کارکردگی دکھانے لگے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات کا پیش خیمہ ہوسکتا تھا جن سے وادی کشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد مل سکتی تھی ۔ ملک بھر میں امیدیں بندھ گئی تھیں کہ وادی کشمیر میں حالات کو بہتر بنایا جا رہا ہے لیکن ایک دہے کی عوامی اور جمہوری حکمرانی کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ ریاست میں حالات ایک بار پھر متاثر ہو رہے ہیں اور ایک بار پھر حکومت اور عوام کے مابین خلیج میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہاں حالیہ عرصہ میں سکیوریٹی دستوں پر حملوں کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں۔
جس وقت سے گذشتہ انتخابات میں مرکز میں بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا ہے اس وقت سے کشمیر پر اس کی توجہ بڑھ گئی ہے ۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات کے بعد بی جے پی نے پی ڈی پی سے اتحاد کرلیا اور وہاں مخلوط حکومت میںحصہ داری حاصل کرلی ۔ ریاست میں اب بی جے پی اقتدار میں اپنا برابرکا حصہ رکھتی ہے اور مرکز میں بھی اسی کی حکومت ہے ایسے میں جموں و کشمیر میں حالات کو مزید بہتر ہونا چاہئے تھا لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے بلکہ حالات اس کے مغائر ہوتے جا رہے ہیں۔ حالات میں مسلسل ابتری سے ریاست کے عوام میں بھی اندیشے سر ابھارنے لگے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں سکیوریٹی فورسیس پر حملوں کے واقعات میں اضافہ ان اندیشوں میں تقویت کا باعث ہے ۔ سکیوریٹی فورسیس نے مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کے بعد حالات کو جس حد تک اور جس انداز سے قابو میں کیا تھا اگر ہم اس سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہیں اور حالات کو مزید بگڑنے کا موقع فراہم کریں تو پھر یہ ہماری نا اہلی ہوگی یا ہماری پالیسیوں کی ناکامی ہوگی ۔ ریاست میں یہ تاثر عوام ہوتا جا رہا ہے کہ حالات کی ابتری در اصل سیاسی رسہ کشی کا نتیجہ ہے ۔ اپوزیشن نیشنل کانفرنس نے تو یہ بھی الزام عائد کیا ہیکہ بی جے پی ریاست میں اپنے سیاسی فائدہ کیلئے جنگی کیفیت پیدا کررہی ہے ۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جو ریاست کی ایک ذمہ دار اپوزیشن جماعت نے عائد کیا ہے ۔ اس پر نہ صرف ریاستی حکومت کو بلکہ مرکزی حکومت کو بھی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ریاست اور مرکز دونوں ہی جگہ وہی جماعت اقتدار میں ہے ۔
ریاست میں نہ صرف سکیوریٹی فورسیس پر حملے ہو رہے ہیں بلکہ عام شہریوں پر فائرنگ کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ دہشت گردوں یا تخریب کاروں کا انکاؤنٹر عام ہوتا جا رہا ہے اور سرحد پر فائرنگ کے واقعات کا سلسلہ بھی چل رہا ہے ۔ ایسی صورتحال میں اگر سیاسی جماعتوں کے مابین اور خاص طور پر حکومت کی حصہ دار اور شریک جماعتوں کے مابین ہی اتفاق نہ ہو اور ایک دوسرے پر تنقیدیں کی جاتی رہیں تو حالات بہتر ہونے کی بجائے ان میںمزید بگاڑ پیدا ہوگا ۔ حالات کو مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے مرکز کو فوری حرکت میں آنے کی ضرورت ہے اور عوام میں اعتماد پیدا کرنے پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ ان کو محسوس کروایا جانا چاہئے کہ نہ صرف کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے بلکہ کشمیری عوام بھی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں۔