جموں و کشمیر میں حکومت سازی

چارہ گر مرہم بھرے گا تو کہاں
روح تک ہیں زخم کی گہرائیاں
جموں و کشمیر میں حکومت سازی
ملک کی سرحدی ریاست جموں و کشمیر میں انتخابی نتائج سامنے آئے تقریبا ایک ہفتہ ہونے کو آ رہا ہے اور اابھی تک وہاں حکومت سازی کے تعلق سے کوئی واضح تصویر سامنے نہیں آئی ہے ۔ انتخابی نتائج ایسے رہے ہیں جن میں کسی بھی ایک جماعت کو تنہا اقتدار نہیں مل سکا ہے ۔ ریاست میں صرف دو جماعتوں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی نے خاطر خواہ تعداد میں نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے اور وہ اقتدار کی دوڑ میں ہیں ۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس اقتدار کی دوڑ میں کہیں دور پیچھے رہ گئی ہیں اور اب ایسے حالات پیدا ہو رہے ہیں جب ان دونوں جماعتوں کی کسی بھی حکومت کی تشکیل میں تائید و حمایت بھی ضروری نظر نہیں آتی ۔ کانگریس کو پہلے ہی سے ملک بھر میں مشکل حالات کا سامنا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات میں ہوئی شکست کے بعد سے کانگریس پارٹی کو مسلسل عوامی ناراضگی کا سامنا ہے ۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد ملک بھر میں جہاں کہیں بھی انتخابات ہوئے ہیں کانگریس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور بی جے پی نے اچھا سیاسی فائدہ حاصل کیا ہے ۔ یہ صورتحال سیاسی اعتبار سے متوقع بھی کہی جاسکتی ہے کیونکہ کانگریس دس سال تک ملک پر حکومت کرتی رہی تھی اور اسے عوامی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور پھر بی جے پی اور خاص طور پر نریندر مودی کے حق میں میڈیا نے رائے عامہ ہموار کرنے جو تشہیری مہم چلائی تھی وہ بھی کارگر ثابت ہوئی ۔ تاہم جموں وکشمیر میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ان کے مطابق کانگریس اور بھی پستی میں چلی گئی ہے ۔ نیشنل کانفرنس کو بھی چھ سال تک اقتدار کے بعد عوام کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم بی جے پی نے جموں میں جو کامیابی حاصل کی ہے اس کو اس کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی معمولی سی کامیابیوں کا یقین تھا لیکن بی جے پی وادی میں اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی ہے ۔ اس کے باوجود وہ جموں و کشمیر میں اقتدار سے کسی بھی قیمت پر پیچھے رہنے کو تیار نہیں ہے ۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے بھی سیاسی طور پر ایسا گھیرا تیار کیا جارہا ہے کہ وہ ریاست میں حکومت سازی کیلئے بی جے پی کی ہی تائید حاصل کرے۔ نیشنل کانفرنس نے حالانکہ پی ڈی پی کو تائید کی پیشکش کی تھی لیکن پی ڈی پی اس کی قبول کرنے تیار نہیں ہے ۔ یہ اس کی سیاسی مجبوری ہے ۔ پی ڈی پی کیلئے یہاں وہی صورتحال ہے جو مہاراشٹرا میں بی جے پی کیلئے تھی جہاں اسے این سی پی نے اپنی تائید کی پیشکش کی تھی لیکن اس کو قبول کرنا بی جے پی کیلئے سیاسی اعتبار سے درست نہیں تھا ۔ اب ریاست میں تشکیل حکومت کیلئے پی ڈی پی اور بی جے پی میں بات چیت ہو رہی ہے اور یہ سیاسی موقع پرستی کہی جاسکتی ہے ۔ پی ڈی پی جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دینے والے دستور ہند کے دفعہ 370 کو حذف کرنے کی شدت سے مخالف ہے اور بی جے پی کے ایجنڈہ میں اس دفعہ کو حذف کرنا شامل ہے ۔ اسی طرح پی ڈی پی ریاست میں مسلح افواج کو خصوصی اختیارات دینے کے قانون کو منسوخ کرنا چاہتی ہے لیکن بی جے پی اس قانون کی تنسیخ کی مخالف ہے ۔ یہ دونوں ایسے بنیادی مسائل ہیں جو دونوں جماعتوں کیلئے اہمیت کے حامل ہیں اور اگر کوئی ایک بھی جماعت ان پر سمجھوتہ کرلیتی ہے تو ہے اس کی سیاسی موقع پرستی ہی ہوگی ۔ ان دونوں مسائل پر سمجھوتہ کئے بغیر پی ڈی پی اور بی جے پی کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا بظاہر ممکن نہیں ہے ۔ در پردہ کچھ سمجھوتے ہوسکتے ہیں لیکن ان سے ریاست اور ملک کے عوام کو واقف کروانا ضروری ہوگا لیکن دونوں جماعتیں در پردہ ہونے والے سمجھوتوں اور مفادات کو منظر عام پر لانے کیلئے تیار نہیں ہونگی ۔ بی جے پی دفعہ 370 کی تنسیخ کے مسئلہ پر ویسے بھی تنقیدوں کا سامنا کر رہی ہے اور اس پر دوہرے معیارات اختیار کرنے کا الزام ہے ۔ اب اگر بی جے پی اس پر سمجھوتہ کرلیتی ہے تو یہ اس کی موقع پرستی ہوگی اور صرف اقتدار کی ہوس ہی ہوگی جس کے تحت بی جے پی اس مسئلہ پر سمجھوتہ کریگی ۔ بی جے پی عوام کی رائے سے اقتدار نہ ملنے کے باوجود اقتدار سے دور رہنے کو تیار نہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر اقتدار میں حصہ داری یا پھر اقتدار پر اجارہ داری چاہتی ہے ۔ پی ڈی پی کیلئے بھی اقتدار سے دور رہنا ممکن نہیں ہے ایسے میں دونوں جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے عوام کی رائے کے حقیقی معنوں میں احترام کے بغیر ایک دوسرے سے دوستی کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ دونوں جماعتوں کیلئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کی تائید کا حصول ان کی مجبوری بن گئی ہے ۔ سیاسی مجبوریوں سے قطع نظر یہ موقع پرستی کی مثال ہے اور اس سے عوام کی رائے کا قطعی احترام نہیں ہوتا ۔ جب مفاد پرستی کے اصول پر حکومت تشکیل پائیگی تو اس سے ریاست یا ریاست کے عوام کی فلاح و بہبود کی امید کرنا فضول ہی ہوگا۔