سیدھی راہ پر چل کر دیر ہو تو سکتی ہے
ٹیڑھی ترچھی چالوں سے منزلیں نہ کھو جائیں
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات
جموں و کشمیر کے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں میں علاقائی پارٹیوں کا مقابلہ دونوں پارٹیوں کانگریس اور بی جے پی سے ہے۔ حکمراں پارٹی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کو ریاستی عوام کے بھروسہ کو دھکہ پہنچانے کا قصوروار قرار دے کر دو قومی پارٹیاں خاص کر بی جے پی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ پہلے مرحلہ کی رائے دہی سے قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ریاست میں انتخابی جلسہ عام سے خطاب کیا لیکن برسوں سے آرٹیکل 370 کی مخالفت کرنے والی بی جے پی کے وزیراعظم نے اس موضوع پر اظہارخیال نہیں کیا۔ پارٹی کے دیگر قائدین نے آرٹیکل 370 کی برخاستگی کے مسئلہ کو اٹھاتے رہے ہیں۔ بی ج پی کے متضاد موقف پر چیف منسٹر جموں و کشمیر عمر عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی اس متنازعہ مسئلہ پر ٹھوس بیان دینے سے راہ فرار اختیار کررہی ہے۔ حقیقت یہ ہیکہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کا موضوع بی جے پی کیلئے نازک ہے۔ اس پر بی جے پی کی پالیسی واضح ہوتی ہے اور 370 کو برخاست کرنے کا مسئلہ اٹھاتی ہے تو ریاست کے عوام پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے سے قبل مکرر غور کریں گے۔ دہلی میں بیٹھ کر بیان دینے والے بی جے پی قائدین جب وادی کشمیر پہنچتے ہیں تو آرٹیکل 370 پر وہ کوئی بیان دینے سے گریز کرتے ہیں۔ برسوں سے آرٹیکل 370 کو برخاست کرنے اور اس پر مباحث کیلئے زور دینے والی پارٹی نے اپنے اس اہم مسئلہ سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ اس مسئلہ کو وقتی طور پر قومی مسئلہ قرار دیکر بی جے پی فی الحال ریاست جموں و کشمیر کی ترقی پر توجہ مرکوز کررہی ہے۔ اقتدار کیلئے بی جے پی کا جن سنگھ کے دور سے اختیار کردہ موقف سے ہٹ جانا جموں وکشمیر کے عوام کو بے وقوف بنانے کی سیاسی کوشش ہوسکتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر عوام کو بے وقوف بنانے کی سیاسی کوشش ہوسکتی ہے۔ یہ آرٹیکل جموں و کشمیر کو خصوصی موقف دیتا ہے۔ یہاں کے عوام کا احساس ہیکہ آرٹیکل 370 ہی ایک ایسا مضبوط رشتہ ہے جو جموں و کشمیر کو مکمل طور پر پورے ہندوستان سے جوڑتا ہے۔ اگر یہ آرٹیکل برخاست کیا گیا تو ہندوستان کے ساتھ ریاست کا انضمام ختم ہوجائے گا۔ بی جے پی نے وادی کشمیر میں دو مقامات پر علحدہ علحدہ موقف اختیار کیا ہے۔ جموں میں اسے رائے دہندوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے تو دوسری طرف کشمیر میں اسے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ اپنی کامیابی کو یقینی بنانے بی جے پی آرٹیکل 370 پر دوہرا موقف اختیار کرے گی تو اس کو ہر دو جگہ نقصان ہوگا۔ جموں و کشمیر کو اس وقت آرٹیکل 370 جیسے موضوعات پر بحث و مباحث میں الجھانے سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عوام کا مسئلہ کرپشن اور بیروزگاری ہے اگرچیکہ انتخابات کا اصل موضوع ترقی کا فقدان، ناقص برقی سربراہی، سیکوریٹی فورسیس کی زیادتیاں بھی ہیں۔ وادی کشمیر کا سب سے اصل مسئلہ بیروزگاری ہے۔ کشمیری نوجوانوں کو روزگار نہ ہونے سے یہ لوگ سڑکوں اور بازاروں میں وقت گذار کر اپنی زندگی کے قیمتی ایام ضائع کررہے ہیں۔ کشمیری عوام کی اس اولین ضرورت کو پورا کرنا سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر کشمیری نوجوانوں کو مناسب روزگار نہیں ملے گا تو ان کا خراب ماحول کی جانب جھکاؤ بڑھ جائے گا۔ برقی کی کمی وادی کا اہم مسئلہ ہے۔ سرینگر سے بہتر دیگر ٹاؤنس میں برقی کی سربراہی میں مسلسل خلل کی شکایت ہے۔ سرکاری اسکولوں و کالجوں میں تعلیم کا معیار ابتر ہے۔ سرکاری سطح پر جن اساتذہ کا تقرر ہوتا ہے وہ کوالیفائیڈ نہیں ہوتے یا پھر کنٹراکٹ کی بنیاد پر خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ وادی کشمیر میں سیکوریٹی صورتحال کو حالیہ برسوں میں بہتر دیکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر عوام الناس کی خوشحالی اور ترقی کیلئے کام کیا جائے تو بلاشبہ کشمیر کو حسب سابق جنت نشان بنانے میں مدد ملے گی لیکن اس حساس ریاست کو فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی کوشش سے دیگر خطرات پیدا ہوں گے۔ لوک سبھا انتخابات میں زبردست کامیابی سے سرشار ہوکر بی جے پی وادی کشمیر کو فرقہ وارانہ خطوط پر منقسم کرے گی تو یہ کشمیری عوام کیلئے ستم بالائے ستم ہوگا۔ کشمیر کے تمام 87 اسمبلی حلقوں سے مقابلہ کرنے والی بی جے پی کو صرف جموں و لداخ میں کامیابی ملے گی۔ یہاں پر نریندر مودی کا نعرہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ لگانے کے بجائے متنازعہ مسائل اٹھا رہی ہے تو اس کی شبیہہ مزید مشکوک ہوگی۔ جموں و کشمیر کا اہم موضوع تیز تر ترقی، امکنہ کی فراہمی، روزگار، نوجوانوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ کشمیر کی روایتی غالب پارٹیوں کو اپنے عوام کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں ہی ان کی کامیابی ہے۔