جموںو کشمیر میں انتخابات

نہ بلاؤں سے نہ آفات سے ڈر لگتا ہے
اب تو اپنوں کی عنایات سے ڈر لگتا ہے
جموںو کشمیر میں انتخابات
الیکشن کمیشن نے جموںو کشمیر میں انتخابات کا اعلان کردیا ہے یہاں جھارکھنڈ کے ساتھ انتخابات ہونگے جو پانچ مراحل میں منعقد ہونگے ایک ماہ طویل انتخابی عمل ہوگا جس میں سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر عوام سے رجوع ہو کر اپنے حق میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرنی پڑیگی ویسے تو جھارکھنڈ میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور ان کا اعلان کیا جاچکا ہے لیکن اہمیت جموں و کشمیر کو حاصل ہوگئی ہے کیونکہ یہاں گذشتہ مہینے انتہائی تباہ کن سیلاب آیا تھا جس میں بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ خود ریاستی حکومت کا سیکریٹریٹ پوری طرح ختم ہوکر رہ گیا تھا اور حکومت و چیف منسٹر کو عارضی دفاتر سے کام کرنا پڑا تھا وزیراعظم نریندرمودی نے سیلاب کے دنوں میں اور پھر دیوالی کے موقع پر ریاست کا دورہ کرتے ہوئے سیلاب کا بچشم خود معائنہ کیا تھا الیکشن کمیشن کی مکمل ٹیم نے بھی ریاست کا دورہ کیا اور انتخابات کے انعقاد کیلئے ریاست کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کی رائے حاصل کی اور پھر یہاںانتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا گیا بعض گوشوں اور خاص طور پر برسر اقتدار نیشنل کانفرنس کی جانب سے انتخابات کے انعقاد میں التوا کی خواہش کی گئی تھی لیکن کمیشن نے اس کو قبول نہیں کیا ریاست میں جو تباہی سیلاب کی وجہ سے آئی تھی اس سے ابھی تک ریاست سنبھل نہیں سکی ہے ریاست کے عوام کو ابھی تک سیلاب کی تباہ کاریوں کے اثرات سے نمٹنا پڑ رہا ہے بے شمار افراد بے گھر ہوئے ہیں اور ابھی اپنے گھروں کو واپس نہیں ہوسکے ہیں۔ ریاستی حکومت کی جانب سے سیلاب متاثرین کی ہر ممکنہ مدد کی کوشش کی جا رہی ہے مرکز نے ابتدائی مرحلہ میں ایک ہزار کروڑ کی امداد کا اعلان کیا تھا اور دوسرے مرحلہ میں 745 کروڑ روپئے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے خود وزیر اعظم کے دفتر میں راحت کاری کاموں کی نگرانی کے مقصد سے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے ہزاروں افراد ایسے ہیں جن کے اپنے گھر سیلاب میں تباہ ہوگئے ہیں اور وہ ابھی تک اپنے گھروں کو واپس نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کی زندگیاں درہم برہم ہوکر رہ گئی ہیں ان کو راحت پہونچانا اور ان کی باز آبادکاری کرنا ایسا کام ہے جو انتہائی مشکل اور وقت طلب ہے ان حالات میں ریاست میں انتخابات کے انعقاد کو ٹالنے کی اپیل کی گئی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے یہاں انتخابات کا اعلان کردیا ہے ایسے میں اب ریاستی حکومت کیلئے کچھ پابندیاں عائد ہوگئی ہیں اور مرکزی حکومت بھی سیلاب متاثرین کی امداد میں پوری فراخدلی سے کام نہیں کرپائے گی ویسے بھی حالیہ وقتوں میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو سیاسی اغراض کیلئے استعمال کیا جارہا ہے وزیراعظم مودی نے دیوالی کے موقع پر سیلاب متاثرین کے ساتھ وقت گذارنے کے نام پر ریاست کا دورہ کیا اور اس دورہ کو بھی سیاسی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہے کیونکہ اس وقت انتخابات کا اعلان ہونا تقریبا یقینی دکھائی دے رہا تھا عمر عبداللہ کابینہ میں کانگریس کے ایک وزیر شام لال شرما نے استعفی پیش کردیا ہے وہ سیلاب پر قابو پانے کا قلمدان رکھتے تھے اور سیلاب سے نمٹنے میں ناکامی پر انہیں تنقیدوں کا سامنا تھا انہوں نے تنقیدوں کو دیکھتے ہوئے ریاست کے یومیہ اجرت پانے والے ملازمین کی خدمات کو باقاعدہ بنانے کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کابینہ سے استعفی پیش کردیا اور اب وہ اپنے سابقہ کابینی رفقا کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ بھی ایک سیاسی شعبدہ ہے عین انتخابات کے اعلان کے موقع پر ایسا کرنا ان کی سیاسی موقع پرستی اور مفاد پرستی کو ظاہر کرتا ہے اس رویہ کا کوئی اور مقصد ہو نہ ہو لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ وہ بھی سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اب جبکہ ریاست میں انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے تو سبھی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں عوام کو رجھانے اور ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرینگی تاہم منفی انداز زیادہ اختیار کیا جارہا ہے ابھی سے وادی کشمیر اور جموں ڈویژن میں خط فاصل کھینچنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں اور علاقہ واریت کو پروان چڑھایا جارہا ہے سیلاب متاثرین کو راحت پہونچانے کے معاملہ میں بھی جانبداری کے الزامات سامنے آئے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ مخصوص لوگ مخصوص علاقہ اور طبقہ کو ہی راحت پہونچانے میں مصروف ہیں اور دوسروں کو اس سے محروم رکھا جا رہا ہے ایسے وقت میں جبکہ ریاست کے عوام شدید تباہی کا شکار ہوئے ہیں اور ساری قوم نے ان کا درد اور تکلیف محسوس کی ہے سیاسی جماعتوں کو اپنے ادنی سیاسی مفادات کی تکمیل کی کوشش کرنے کی بجائے عوام کو راحت پہونچانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی اب چونکہ انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے سبھی جماعتوں کو سیلاب متاثرین اور ان کو راحت کا سیاسی استحصال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔