جمعہ کے عربی دونوں خطبوں کا شرعی حکم

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ کیا جمعہ کے دن دو خطبوںکے درمیان امام کے بیٹھ جانے کے وقت ہاتھ اٹھاکر دعا مانگنا مسنون ہے یا نہیں ؟
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں جمعہ کے خطبہ کے دوران ونیز دو خطبوں کے درمیان امام کے بیٹھنے کے وقت خاموش رہنا ضروری ہے اس لئے فقہاء نے دو خطبوں کے درمیان ہاتھ اٹھاکر یا بغیر ہاتھ اٹھائے زبان سے دعا مانگنے کو مکروہ قرار دیا ہے البتہ امام کے بیٹھے رہنے تک دل سے دعا مانگ سکتے ہیں۔ مبسوط سر خسی جلد : ۲ باب الجمعۃ میں ہے۔ ’’ و وجوب الانصات غیر مقصود علی حال تشاغلہ بالخطبۃ حتی یکرہ الکلام فی حالۃ الجلسۃ بین الخطبتین‘‘ خطبہ کے دوران امام کے بیٹھے رہنے تک دل میں اپنے مقصود و مراد کا استحضار کر کے دعا کی جائے اور یہی مسنون ہے۔ رد المحتار باب الجمعۃ میں ہے ۔ ’’ قال فی المعراج فیسن الدعاء بقلبہ لَا بلسانہ لأنہ مأمامور بالسکوت ‘‘۔

تفریقِ زوجین اور حقِ حضانت
سوال : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میںکہ ایک لڑکی اپنے شوہر سے خلع حاصل کرنا چاہتی ہے اور ان دونوں کا ایک دو سالہ لڑکا ہے۔ خلع کے بعد لڑکا کس کے پاس رہے گا ۔ اگر لڑکی کسی غیر رشتہ دار سے شادی کرلے تو کیا ماں کا حق حضانت ختم ہوکر دادی کو حاصل ہوجائے گا۔
(۲) اگر لڑکی نے دوسری شادی نہیں کی اور سات سال تک اپنے بیٹے کی پرورش کی تو اس کے بعد کیا بچے کو والد جبرا واپس لے لے سکتا ہے ۔ اگر بچہ والد کے پاس جانے سے انکار کردے تو بھی اس کو چار و ناچار اپنے ددھیال میں جاکر رہنا پڑے گا ؟ بینوا تؤجروا
جواب : بشرط صحت سوال صورت مسئول عنہا میں حضانت کی مدت لڑکے کے لئے سات سال ہے ۔ اگر میاں بیوی میں تفریق ہوجائے تو لڑکا سات سال تک اپنی والدہ کے پاس پرورش پائے گا۔ در مختار کتاب النکاح باب الحضانۃ میں ہے : (والحضانۃ) اما کان اوغیرھا (احق بہ ) ای بالغلام (حتی یستغنی) عن النساء (و قدر بسبع و بہ یفتی)۔
لڑکے کی ماں نے خلع کے بعد کسی ایسے شخص سے نکاح کیا ہو جو بچہ کا رحمی قرابت دار نہیں ہے بلکہ اجنبی ہے تو حق حضانت ماں سے نکل کر نانی کو حاصل ہوجائے گا اور اگر نانی نہ ہو تو حق حضانت دادی کو حاصل ہوگا۔ در مختار کے باب الحضانۃ ص :۶۵۵ میں ہے (ثم) ای بعدالام بأن ماتت اولم تقبل او اسقطت حقھا او تزوجت بأ جنبی (ام الام و ان علت) عند عدم اہلیۃ القربی (ثم ام الاب و ان علت) بالشرط المذکور۔
(۲)لڑکے کی عمر سات سال ہونے کے بعد باپ اپنے لڑکے کو جبراً ماں سے واپس لے سکتا ہے ۔ بچہ کو بالغ ہونے سے قبل یہ حق نہیں کہ جس کسی کے پاس چاہے رہے بلکہ حسب شریعت جس کے ذمہ اس کی نگہداشت ہے، اس کے پاس رہنا ضروری ہے۔ لڑکے چونکہ کھیل کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ ایسی جگہ رہنے کو پسند کرتے ہیں جہاں محبت و شفقت کے سبب کھیل کا زیادہ موقعہ ملتا ہو اور جہاں تعلیم اور تنبیہ ہوتی ہو رہنے کو پسند نہیں کرتے اس لئے شریعت میں ان کی رضامندی کا کوئی لحاظ نہیں کیا گیا۔ در مختار باب الحضانۃ میں ہے : (ولا خیار للولد عندنا مطلقا) ذکر اکان او انثی۔رد المحتار میں ہے : (قولہ ولا خیار للولد عندنا) ای اذا بلغ السن الذی ینزع من الام یأ خذہ الاب ولا خیار للصغیر لانہ لقصور عقلہ یختار من عندہ اللعب و قد صح ان الصحابۃ لم یخیروا ۔
فقط واﷲ تعالی أعلم بالصواب۔