ٹی آر ایس اور جماعت کی دوستی قوم کے لیے پھر ایک بار نقصاندہ
محمد مبشر الدین خرم
حیدرآباد۔24 اگسٹ۔ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی اور انہیں سہولتوں کی عدم دستیابی کی شکایات ہمیشہ سے رہی ہیں لیکن تشکیل تلنگانہ کے بعد مسلمانوں اور اردو کے مسائل حل ہو جانے کی توقع کی جا رہی تھی اور جب مقامی جماعت نے ٹی آر ایس کو تعاون کا اعلان کیا تو یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ مسائل کے سلسلہ میں نمائندگیاں ہوں گی اور خاص طور پر اردو اور تعلیمی مسائل کے حل کو یقینی بنایا جائے گا لیکن گورنمنٹ ڈگری کالج فار گرلز گولکنڈہ کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کالج کو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لئے نہیں بلکہ مسلم طلبہ کے مستقبل کو تباہ کرنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ گورنمنٹ ڈگری کالج فار ویمنس گولکنڈہ میں تاحال کوئی جائیداد کو منظوری نہیں دی گئی ہے جبکہ کالج کا دوسرا سال شروع ہو چکا ہے۔ اس کالج میں تعلیم حاصل کر رہی طالبات جو کہ متوسط و غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ کالج میں پڑھائی کے آغاز کا انتظار کر رہی ہیں لیکن ان کے مسائل کی کہیں سنوائی نہیں ہے بلکہ انہیں یہ کہا جانے لگا ہے کہ انہوں نے سرکاری کالج میں داخلہ حاصل کیوں کیا؟ تعلیمی سال کا آغاز ہوئے کئی ماہ گذر جانے کے بعد بھی اب تک گولکنڈہ میں موجود ڈگری کالج میں کلاسس کا آغاز نہیں ہو پایا ہے ۔ سرکاری کالجس میں اساتذہ و لکچررس کی عدم موجودگی کے سبب پیدا شدہ اس صورتحال کے بعد بھی اگر ان کالجس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ سے توقعات رکھی جاتی ہیں تو صرف نادانی ہی کہا جائے گا۔ گولکنڈہ میں سال گذشتہ شروع کئے گئے اس کالج سے اطراف کے علاقوں کے عوام کی توقعات میں اضافہ ہوا تھا اور یہ کہا جانے لگا تھا کہ اس علاقہ سے تعلق رکھنے والی طالبات بھی اب سرکاری کالج میں اعلی تعلیم حاصل کر پائیں گی لیکن اس کالج کی موجودہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہو چکی ہے اور طالبات اب مجبور ہو چکے ہیں کہ وہ اپنی آواز خود اٹھائیں اس سلسلہ میں طالبات نے کمشنر محکمۂ تعلیمات کو ایک شکایت روانہ کرتے ہوئے فوری اساتذہ کے تقرر کو یقینی بنانے کی خواہش کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈگری سال دوم کے پہلے سمسٹر کا انعقاد اواخر ستمبر یا اکٹوبر کے اوائل میں عمل میں آئے گا لیکن جو طالبات کلاسس نہ ہونے کے مسائل سے دو چار ہیں وہ کیسے ان امتحانات میں شرکت کریں گے؟ محکمہ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس اردو میڈیم کالج کی صورتحال انتہائی نا گفتہ بہ ہو چکی ہے لیکن محکمہ اپنے طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہے۔ محکمہ کے عہدیداروں نے بتایا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ اس ڈگری کالج میں جائیدادوں کی منظوری کے بغیر کالج کا آغاز عمل میں لایا گیا۔ کالج کی عمارت کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کیا جانا کافی نہیں ہے بلکہ کالج میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو اساتذہ و لکچررس کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے ۔ شہر حیدرآباد کے مسلم گنجان آبادی والے اس علاقہ میں موجود اس اردو میڈیم کالج کی حالت میں بہتری لانا منتخبہ عوامی نمائندوں کی ذمہ داری ہے لیکن اس مسئلہ سے واقفیت کے باوجود منتخبہ عوامی نمائندوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔گورنمنٹ ڈگری کالج گولکنڈہ میں موجود سینکڑوں طالبات کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ کالج میں فی الحال بی ۔اے ‘ بی ۔کام اور بی ۔ایس۔سی میں داخلے فراہم کئے گئے ہیں لیکن تدریسی و غیر تدریسی عملہ کے بغیر چلائے جارہے
اس کالج میں دیگر کالجس سے عارضی اساتذہ کا تقرر کرتے ہوئے بھی کلاسس کے انعقاد کو ممکن بنایا جانا دشوار بن چکا ہے۔ کمشنر محکمۂ تعلیمات کے رخصت پر ہونے کے سبب طلبہ کی اس شکایت پر فوری کوئی فیصلہ کیا جانا ممکن نہیں ہے لیکن اگر حکومت اور عوامی نمائندے اس مسئلہ میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں تو ایسی صورت میں اردو میڈیم کے سینکڑوں طلبہ کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ لکچررس نہ ہونے کے ساتھ ساتھ درسی کتب بھی فراہم نہ کئے جانے کے باعث صورتحال مزید تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ ذمہ داروں نے بتایا کہ فی الحال تین عارضی لکچررس کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کالج کو چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے جن کی خدمات دیگر کالجس میں ہیں۔ کیمسٹری‘ حساب اور تاریخ کے لکچررس کے ذریعہ اس مکمل کالج کو چلانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ گولکنڈہ میں قائم کئے گئے اس کالج میں داخلہ حاصل کرنے والی طالبات اطراف کے علاقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں جامعہ عثمانیہ میں پوسٹ گریجویشن داخلوں میں اردو میڈیم سے تعلق رکھنے والوں کے حوصلہ شکن ردعمل کی شکایت منظر عام پر آئی جب حکومت کی جانب سے چلائے جانے والے کالجس میں گریجویشن سطح پر طالبات کو تدریسی سہولتیں ہی فراہم نہیں کی جائیں گی تو ان سے کیسے اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مہارت حاصل کرتے ہوئے پوسٹ گریجویشن میں داخلہ حاصل کریں گی؟ حکومت کی جانب سے ریاست میں خانگی اداروں میں درکار تدریسی عملہ کی عدم موجودگی اور لیاب و دیگر سہولتوں کو بنیاد بناتے ہوئے انہیں ہراساں کرنے اور اجازت نامہ منسوخ کرنے کی کئی شکایات منظر عام پر آئی ہیں لیکن اب حکومت کی جانب سے بغیر تدریسی و غیر تدریسی عملہ کے چلائے جانے والے اس کالج کے منتظم ادارے محکمۂ تعلیمات کے خلاف کون کاروائی کرے؟ جب حکومت خود اقلیتی طلبہ کے مستقبل سے کھلواڑ کی مرتکب بننے لگے تو ریاست کی اقلیتیں با لخصوص مسلمان اپنے مسائل کہاں حل کروائیں؟