بنگلہ دیش میںجماعت کے سربراہ کو سزائے موت کے حکمنامہ پر شدید احتجاج
ڈھاکہ 30 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام )بنگلہ دیش میں برہم اسلام پسندوں نے آج پولیس کے ساتھ جھڑپ کی ، خام بم پھینکیںاور وزیر اعظم شیخ حسینہ کے رشتہ دار کے مکان پر حملہ کیا جبکہ ملک بھر میں ہڑتال مناتے ہوئے کٹر پسند جماعت اسلامی کے سربراہ کو 1971 ء میں جنگی جرائم کے ارتکاب پر سنائی گئی سزائے موت پر شدید احتجاج درج کرایا ۔ 71 سالہ مطیع الرحمن نظامی کو کل اسپیشل ٹربیونل نے 43 سال قبل پاکستان کے خلاف قوم کی جنگ آزادی کے دوران اجتماعی قتل ، عصمت ریزی ، لوٹ مار اور کئی دانشوروں کو موت کے گھاٹ اتارنے کی سرپرستی کی پاداش میں سزائے موت سنائی۔ جماعت کے احتجاجیوں نے جھڑپوں کے دوران خام بموں کا استعمال کیا جس پر پولیس راج شاہی اور بوگرا نے آنسو گیاس کے شل اور ربر کی گولیوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہوئی،جہاں احتجاجیوں نے شاہراہوں پر درختوں کے تنے ڈال کر مواصلات کی لائنوں کو منقطع کرنے کی کوشش بھی کی۔ تاہم دارالحکومت اور دیگر بڑے شہروں میں زندگی بڑی حد تک معمول کے مطابق رہی حالانکہ جماعت کے کارکنوں نے کہیں کہیں جلوس نکالے۔
بنگلہ دیش ایک اور جنگی جرائم فیصلے کیلئے تیار
دریں اثناء جماعت اسلامی کے ایک اور سرکردہ رہنما میر قاسم علی کو جنگی جرائم کی پاداش میں اتوار کو سزا سنائی جائے گی ، جس کے وہ 1971 ء میں جنگ آزادی کے دوران مرتکب ہوئے تھے، ایک خصوصی بنگلہ دیشی ٹربیونل نے آج یہ اعلان کیا۔ ججوں کے تین رکنی پیانل نے جماعت کے محروس رہنما 62 سالہ قاسم علی کو اتوار کے روز کٹہرے میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے انٹرنیشنل کرائمس ٹربیونل 2 کے عہدیداروں نے بتایا کہ عدالت انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات پر فیصلہ سنانے تیار ہے۔مجرم قرار پانے پر قاسم علی کو بھی سزائے موت کا سامنا ہے ۔