جلد کے کینسر سے دیگر اقسام کے کینسر کا بھی خطرہ

ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ این ایم ایس سی کے اعتبار سے مخدوش افراد کینسر کے رسولیوں کے اعتبار سے بھی مخدوش حالت میں ہوتے ہیں۔ خاص طورپر ایسے افراد کو یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو کم سنی میں ہی این ایم ایس سی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ملبورن یونیورسٹی آسٹریلیا کے پروفیسر برائے ادویہ رونی سنکلیر نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ این ایم ایس سی کے لئے مخدوش حالت کینسر زدہ رسولیوں کے ہونے کے خدشہ کی نقیب ہے ۔یہ خطرہ ان لوگوں کے لئے بھی زیادہ ہوجاتا ہے جو کینسر کی کسی بھی قسم کے لحاظ سے مخدوش حالت میں نہیں محسوس ہوتے ۔ تاہم عظیم ترین خطرہ ان لوگوں کے لئے ہے جو دھوپ سے لاحق ہونے والی دیگر اقسام کے کینسرس جیسے میلانوما کا شکار ہوچکے ہوں۔ جن کو تھوک کے غدودوں ، ہڈی اور بالائی آنتوں کی سوزش کے کینسر ہوچکے ہوں ۔ جو اس مرض سے چھٹکارا پاچکے ہوں اور جن کی عمر 25 سال سے کم ہو این ایم ایس سی کے علاوہ دیگر اقسام کے کینسر سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ انھیں علی الترتیب تھوک کے غدود اور میلانوما کا علی الترتیب 94 اور 93 گنا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ۔ ہماری تحقیق سے انکشاف ہوتا ہے کہ جن لوگوں کو کمسنی میں این ایم ایس سی لاحق ہوچکا ہو انھیں کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ ایسا گروپ اسکریننگ کے ذریعہ اندرونی کینسر ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چلا سکتا ہے ۔

محققین کا اندازہ ہے کہ جن لوگوں کو ان کی زندگی میں بعد ازاں جلد کا کینسر ہو وہی ہوں گے جنھیں کمسنی میں جلد کا کینسر ہوچکا ہو اور بحیثیت عمومی انھیں کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوگا ۔ اس کی تحقیقات کرنے کے لئے انھوں نے عمر کے لحاظ سے خطروں کے تناسب کا تخمینہ کیا اور پتہ چلایا کہ جن افراد کو کمسنی میں این ایم ایس سی ہوچکا ہو انھیں کینسر کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے ۔ محققین نے 502490 افراد کا جنھیں این ایم ایس سی ہوچکا تھا اور 8787313 افراد کا جنھوں نے پہلے ہی خود پر قابو پالیا تھا ، دو گروپ بنائے 5 تا 6 سال تک ان کی برقیاتی نگرانی کی گئی۔ این ایم ایس سی گروپ کے 67148 کنٹرول گروپ کے 863441 افراد کو بعد میں کینسر لاحق ہوا ۔ این ایم ایس سی گروپ کے افراد کو مثانوں ، دماغ ، مقعد ، جگر ، پھیپھڑے ، لبلبہ ، فوطوں اور پیٹ کا کینسر لاحق ہونے کا خطرہ زیادہ تھا ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس خطرہ میں مزید اضافہ ہوا۔ یہ تحقیق رسالہ ’’کینسر اپیڈیمیالوجی، بایومارکر اینڈ پریونشن‘‘ نامی رسالہ میں شائع ہوچکی ہے ۔