جلا ہوا جسم بتاکر بھیک مانگنے کا نیا حربہ

زخم بنانے کیمیکل کا استعمال ،دھوکہ باز گدا گروں کی بہتات، چھتیس گڑھ کی ٹولی ملوث
ابو ایمل
حیدرآباد ۔ 27 جولائی ۔ مذہب اسلام میں صلہ رحمی ،خیر خیرات اور دوسروں کی داد رسی کی بہت بڑی اہمیت اور جب موقع رمضان المبارک جیسے مقدس مہینہ کا ہو تو اہل اسلام خاص کر مسلمانان حیدرآباد کے دلوں میں خیر و خیرات اور دوسروں کی خیر گیری کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا گداگروں اور بھکاریوں کو خوب اندازہ ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مستحق اور مجبور مسلم گداگر تو دور ،مکار اور ہٹے کٹے نوجوان اور غیر مسلم شاطر خواتین برقعہ استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کے اس نیک جذبہ کا خوب استحصال کرتے نظر آرہے ہیں۔ دراصل کل جمعیۃ الوداع کے موقع پر ہم نے شاہ علی بنڈہ تا مکہ مسجد اور چارمینار کے پاس چند ایسے معصوم بچے،خواتین اور نوجوان بچوں کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا جس کے جسموں پرآگ سے جھلس جانے والا زخم نظر آرہا تھا جسے دیکھ کر ہر آدمی کا رونگٹا کھڑا ہونا یقینی تھا اس منظر کو دیکھنے والا تقریبا ہر مسلمان انہیں اچھی خاصی رقم بطور خیرات دے رہا تھا مگر جب ہم نے قریب جاکر ان کی حالتوں کا جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ایک ساتھ اتنے بچے،اتنی خواتین اور نوجوان بچوں کے جسم کیسے جل گئے؟ اور تمام کے تمام بھکاریوں کے جسم پر ایک ہی قسم کے زخم کیسے آگئے تو اس موقع پر جن باتوں کا پتہ چلا اور جس حقیقت کا انکشاف ہوا وہ یقینا آپ کیلئے بھی حیرت اور افسوس کا باعث ہوگا ۔ تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ ان بھکاریوں کی باضابطہ ایک ٹیم ہے جو معصوم بچوں، خواتین اور کم عمر لڑکوں کے جسم پر ایک مخصوص کیمیکل کا لیپ لگا یا گیا ہے جو دھوپ میں سوکھنے کے بعد آگ سے جلے ہوئے زخم کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ اس موقع پر جب ہم ان کی تصویر لینے لگے تو یہ لوگ وہاں سے اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کرنے لگے ۔ بتایا جاتا ہے کہ مکار بھکاری کی اس ٹیم کا تعلق چھتیس گڑھ سے ہے جو ہر سال رمضان میں آکر مسلمانوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہوئے حقیقی اور مستحق گداگروں کا حق مار لیتے ہے ۔ یہ غیر مقامی گداگروں نے مقامی اور مستحق گداگروں کی نیند حرام کردی ۔ ان کو دیکھ کر مقامی گداگروں کے پیسنے چھوٹ گئے اور کچھ دیر کیلئے انہیں بھی اپنے ہم منصبوں پر رحم آگیا مگر جب ان کو حقیقت کا پتہ چلا تو وہ ان سے لڑائی پر آمادہ ہوگئے اور جب کوئی مسلمان انہیں بھیک دینے آگے بڑھا تو مقامی گداگر یہ کہہ کر ان کو روکنے کی کوشش کرے کہ یہ معصوم بچے زخمی نہیں ہیں یہ زخمی ہونے کا ناٹک کررہے ہیں۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ لوگ چھتیس گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایک بڑی گاڑی میں آکر ایک مخصوص مقام پر پھیل جارہے ہیں اور ان کے ساتھ آنے والے چند افراد ان تمام بھکاریوں کی آمدنی اور اس کی حرکات و سکنات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اور پھر اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں اب چونکہ رمضان کے آخری ایام ہیں اور جمعتہ الوداع گذر چکا ہے لہٰذا اب یہ شاطر اور دھوکہ بازا بھکاری آپ کو عید کے دن عیدگاہ میر عالم ،مکہ مسجد اور شہر کی دیگر بڑی عیدگاہوں کے پاس اسی قسم کا ناٹک کرتے ہوئے بھیک مانتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام گداگروں کے پاس سیل فونس بھی موجود ہے جس کے ذریعہ یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ربط میں رہتے ہیں۔ لہٰذا اب اگر آپ کو ایسے جسم جلے ہوئے بھکاری نظر آئے تو چونکئے مت، بلکہ تحقیق کے بعد مستحق بھکاریوں کی مدد کیجئے تا کہ آپ کے نیک جذبے کے ساتھ ساتھ آپ کی حلال کمائی بھی کسی مستحق اور ضرورت مند افراد تک پہنچ سکے اور اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوجائے ۔ abuaimalazad@gmail.com