حیدرآباد۔/4جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ کے پہلے یوم تاسیس کے موقع پر محکمہ اقلیتی بہبود نے 3تا6جون مختلف پروگراموں کے انعقاد کا آغاز کیا ہے جن میں 9 پروگرام اردو زبان سے متعلق ہیں جبکہ ایک سکھ برادری جبکہ ایک کرسچین طبقہ کی جانب سے پروگرام منعقد کیا جائے گا۔ اقلیتوں کو خوش کرنے کیلئے حکومت نے جشن تلنگانہ کے عنوان سے اردو کے مختلف تہذیبی، ثقافتی اور ادبی پروگرام طئے کئے ہیں لیکن افسوس کہ جشن تلنگانہ اور اردو زبان کے مختلف پروگرام اردو زبان اور اردو والوں کے ساتھ محض ایک مذاق بن چکے ہیں۔ اردو زبان کی ترقی و ترویج کے بلند بانگ دعوے ہر حکومت کی جانب سے کئے جاتے ہیں لیکن اس سلسلہ میں ٹھوس اقدامات کے بجائے صرف تہذیبی پروگراموں کے انعقاد کو اردو کی خدمت تصور کیا جاتا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت کی حلیف جماعت بھی جو اردو والوں کی نمائندگی کی دعویدار ہے وہ بھی اس پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ حکومت نے اردو زبان کے9پروگرام طئے کئے اور روزانہ تین تا چار پروگرام منعقد ہورہے ہیں۔ زیادہ تر پروگرام پرانے شہر کے علاقوں میں منعقد کئے جارہے ہیں تاکہ اقلیتوں میں حکومت خود کو اردو دوست کی حیثیت سے پیش کرسکے۔ جہاں تک اردو زبان کی ترقی و ترویج کیلئے ٹھوس اقدامات کا سوال ہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ یوم تاسیس کے موقع پر حکومت کھمم ضلع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کیلئے احکامات جاری کرتی۔
مشترکہ ریاست آندھرا پردیش کے 15اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا موقف حاصل تھا۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد 9اضلاع میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے جبکہ ضلع کھمم میں ابھی تک اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل نہیں ہوا۔ تلنگانہ حکومت نے اس سلسلہ میں جلد احکامات جاری کرنے کا تیقن دیا تھا لیکن پہلے یوم تاسیس کے موقع پر حکومت نے اس اہم مسئلہ پر توجہ دینے کے بجائے صرف تہذیبی اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعہ اقلیتوں کی دلجوئی کی کوشش کی ہے۔ حالیہ عرصہ میں آر ٹی سی کی تقسیم عمل میں آئی اور تلنگانہ آر ٹی سی کیلئے جو لوگو تیار کیا گیا اس میں اردو غائب ہے جبکہ نظام حیدرآباد نے پہلی مرتبہ آر ٹی سی سرویس کا آغاز کیا تھا۔ اسی طرح صفائی کی مہم کے سلسلہ میں سوچھ حیدرآباد مہم شروع کی گئی اور اس پروگرام کے لوگو میں بھی اردو شامل نہیں ہے جبکہ حیدرآباد اردو کا شہر ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حکومت کی حلیف مقامی جماعت اس مسئلہ پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ جشن تلنگانہ کے سلسلہ میں جو پروگرام مرتب کئے گئے اس میں ایک مخصوص گروپ کو نمائندگی دی گئی جسے مقامی سیاسی جماعت کی سرپرستی حاصل ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ حکومت حیدرآباد کے اردو اخبارات کے ایڈیٹرس اور سینئر صحافیوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتی تاکہ پروگراموں کو قطعیت دی جاتی۔ صرف تین سرکاری عہدیداروں کو پروگراموں کی تیاری کی ذمہ داری دی گئی جنہوں نے مخصوص سیاسی جماعت کے دباؤ کے تحت پروگرام تیار کئے۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ دو روزہ قومی سمینار میں ’’ تلنگانہ میں اردو صحافت‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیلئے جس شخص کو مدعو کیا گیا اس کا تعلق کبھی بھی اردو صحافت سے نہیں رہا۔ ایک انگریزی اخبار کے ریٹائرڈ صحافی اور مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے ملازم کو تلنگانہ میں اردو صحافت پر مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تلنگانہ میں اردو صحافی موجود نہیں تھے جو اس موضوع پر مقالہ پیش کرتے۔ حیدرآباد میں کئی ایسے کہنہ مشق صحافی موجود ہیں جو نہ صرف تلنگانہ بلکہ ملک میں اردو صحافت پر سیر حاصل مقالے پیش کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں برخلاف اس کے ایک غیر اردو داں ریٹائرڈ صحافی کو سفارش کی بنیاد پر مدعو کیا گیا۔ پروگراموں کی ترتیب میں کس قدر سفارشات نے رول ادا کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو پروگراموں کی نظامت شوہر اور بیوی کو دی گئی ہے۔ ایوارڈس کی پیشکشی میں بھی سفارشات اور پیرویوں نے اہم رول ادا کیا۔ ایسے افراد کو بھی ایوارڈ دیئے گئے جو اپنی مخالف تلنگانہ تحریروں کیلئے جانے جاتے ہیں
پرانے شہر میں تہذیبی پروگراموں کے انعقاد کے بارے میں جب عوام سے رائے جاننے کی کوشش کی گئی تو عوام کا کہنا تھا کہ حکومت کو ان پروگراموں پر خرچ ہونے والی رقم پرانے شہر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کرنی چاہیئے تھی۔ صرف پروگراموں کے انعقاد سے اردو زبان کی ترقی اور ترویج ممکن نہیں ہے ۔ پرانے شہر میں آج بھی اردو میڈیم سرکاری مدارس زبوں حالی کا شکار ہیں، ان کی تعداد میں ہر سال کمی ہورہی ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ایک بھی اردو میڈیم اسکول کا اضافہ تو کجا ایک اردو ٹیچر کا تقرر تک نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر اور ڈپٹی چیف منسٹر کو ان تہذیبی پروگراموں میں شرکت کے ذریعہ اقلیتوں کو خوش کرنے کی بجائے پرانے شہر کے اردو مدارس کا معائنہ کرنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں کا دورہ کریں جہاں سڑکوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں صاف پینے کے پانی کی سربراہی کا کوئی انتظام نہیں۔ پرانے شہر میں تہذیبی پروگراموں اور مشاعروں کے انعقاد سے وقتی طور پر اردو والوں کو محظوظ تو کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اردو کی ترقی اور ترویج میں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ اردو کے بارے میں حکمرانوں کی زبانی ہمدردی اور اردو والوں کی نمائندگی کے دعویداروں کی خاموشی پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے:
دھوپ وعدوں کی بری لگنے لگی ہے اب ہمیں
صرف تعریفیں نہیں اُردو کا حل بھی چاہیئے