پروگراموں کا آج آخری دن ، چیف منسٹر نے تاحال ایک پروگرام میں بھی شرکت نہیںکی ، متعلقہ اعلیٰ عہدیدار بھی غائب
حیدرآباد 5 جون (سیاست نیوز) جشن تلنگانہ میں حکومت نے اردو کے پروگراموں کو شامل کیا ہے لیکن اردو کے ساتھ حکومت کا سوتیلا سلوک دیکھا گیا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے ذریعہ جملہ 11 تہذیبی اور ثقافتی پروگرام طئے کئے گئے اور کل 6 جون پروگراموں کے انعقاد کا آخری دن ہے لیکن کسی بھی پروگرام میں چیف منسٹر اور وزراء نے شرکت کی زحمت نہیں کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صرف ضابطہ کی تکمیل کیلئے اردو کے پروگرام منعقد کئے گئے اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو ان پروگراموں میں شرکت کی ذمہ داری دیدی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اردو زبان سے ہمدردی اور اس کی ترقی کے دعوے کرنے والی حکومت کے ذمہ دار ان پروگراموں میں شرکت کرتے ہوئے اپنی سنجیدگی کا ثبوت دیتے ۔ برخلاف اس کے اردو پروگراموں کو صرف پرانا شہر کے علاقوں تک محدود کردیا گیا اور اس میں کسی بھی اہم شخصیت نے شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی ۔ حکومت نے اردو کے ساتھ اس بے اعتنائی کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اردو زبان محض مخصوص فرقہ اور مذہب کی زبان ہے۔ چونکہ اردو داں طبقہ کی آبادی زیادہ تر پرانا شہر میں ہے لہذا ان پروگراموں کو پرانا شہر تک محدود کردیا گیا۔ تین دن میں 9 پروگرام منعقد کئے گئے جبکہ کرسچن اور سکھ طبقہ کیلئے ایک ‘ ایک پروگرام طئے کیا گیا ۔ نیکلس روڈ اور شہر کے دیگر مقامات پر جشن تلنگانہ کے سلسلہ میں مختلف پروگرام منعقد کئے گئے جس میں ریاستی وزراء اور عوامی نمائندوں نے شرکت کی جبکہ اردو سے متعلق پروگراموں کیلئے صرف ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو تمام تر ذمہ داری دیدی گئی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ پروگراموں کی تیاری سے متعلق کمیٹی کے عہدیداروں اور حکومت کے مشیر برائے ثقافت نے بھی اردو پروگراموں میں شرکت سے گریز کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اپنی دیگر مصروفیات کا بہانہ بناکر خود کو اردو پروگراموں سے دور رکھا جبکہ انہوں نے کرسچن طبقہ کی جانب سے منعقد کئے جانے والے پروگرام میں شرکت سے اتفاق کرلیا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو اردو کی ترقی اور ترویج سے زبانی دلچسپی ہے ؟ اگر حکومت فروغ اردو میں سنجیدہ ہوتی تو یقینی طور پر حکومت کے اہم نمائندے ان پروگراموں میں شرکت کرتے ۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار خود بھی حکومت کے رویہ سے خوش نہیں ہیں کیونکہ پروگراموں پر لاکھوں روپئے خرچ کئے گئے لیکن عوام کی شرکت کے اعتبار سے کوئی مثبت رد عمل نہیں دیکھا گیا ۔ ان پروگراموں کے انعقاد کے باوجود پرانا شہر کے عوام میں کوئی دلچسپی نہیں دیکھی گئی ۔ اقلیتی بہبود کے عہدیدار جنہوں نے ان پروگراموں کو ترتیب دیا وہی اس میں شریک رہے ۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسا لاکھوں روپئے خرچ کرتے ہوئے چند عہدیداروں کی تفریح طبع کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اردو والوں کو امید تھی کہ جشن تلنگانہ کے موقع پر اقلیتوں اور اردو زبان کی ترقی کے بارے میں حکومت کی جانب سے اہم اعلانات کئے جائیں گے لیکن چیف منسٹر نے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہیں کی جس سے اردو والوں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ۔ حکومت کے جو نمائندے ان پروگراموں میں شریک ہوئے ان کی تقاریر میں وہی پرانے وعدے اور تیقنات دوہرائے گئے جو گذشتہ ایک سال سے دوہرائے جارہے ہیں۔ چیف منسٹر کے علاوہ شہر سے تعلق رکھنے والے کسی بھی وزیر اور عوامی نمائندے نے اردو پروگراموں میں شرکت نہیں کی جبکہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے اخبارات میں جاری کئے گئے اشتہارات میں تمام عوامی نمائندوں کے نام شامل کئے جارہے تھے ۔ عوام کو امید تھی کہ پرانا شہر میں چیف منسٹر کی آمد سے علاقہ کی ترقی یقینی ہوگی۔