اقلیتی طبقہ کے جذبات مجروح، ٹی آر ایس کے کارکنوں میں مایوسی، حکومت کے اقلیتی نمائندوں کی خاموشی
حیدرآباد۔/6جون، ( سیاست نیوز) تلنگانہ ریاست کے قیام کی پہلے یوم تاسیس کے موقع پر حکومت نے بڑے پیمانہ پر جشن تلنگانہ کا اہتمام کیا لیکن برسراقتدار پارٹی اپنے اُن قائدین اور کارکنوں کو خوش کرنے میں ناکام ہوگئی جو گزشتہ ایک برس سے مختلف سرکاری عہدوں کی اُمید لگائے ہوئے ہیں۔ شہر اور اضلاع سے تعلق رکھنے والے پارٹی قائدین نے اس سلسلہ میں وزراء اور عوامی نمائندوں سے شکایت کی کہ جشن تلنگانہ میں پارٹی سے وابستہ افراد کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف سفارشی ناموں کو ترجیح دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ دیگر طبقات کے علاوہ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین بھی ناراض ہیں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنے اضلاع سے تعلق رکھنے والے وزراء اور عوامی نمائندوں کو جذبات اور احساسات سے واقف کرایا۔ اقلیتی قائدین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 15برسوں سے وہ علحدہ تلنگانہ جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن یوم تاسیس کے موقع پر انہیں پروگراموں کی تیاری میں شامل نہیں کیا گیا۔ حکومت نے ریاستی سطح پر اور ضلعی سطح پر تلنگانہ تحریک سے وابستہ افراد کو اعزازات پیش کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جن افراد کو اعزازات پیش کئے گئے ان میں اکثریت ایسے افراد کی تھی جو تلنگانہ تحریک سے وابستہ نہیں رہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اضلاع میں اعزازات کے سلسلہ میں اقلیتی طبقہ کو یکسر فراموش کردیا گیا اور حکومت میں شامل اقلیتی نمائندہ نے اقلیتوں کو انصاف دلانے میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ اقلیتی قائدین نے پارٹی کے دیگر قائدین کو بھی اس بات کی شکایت کی کہ گزشتہ ایک برس سے وہ حکومت کی اسکیمات عوام تک پہنچانے میں اہم رول ادا کررہے ہیں لیکن سرکاری عہدوں پر تقررات کا عمل ابھی تک شروع نہیں کیا گیا۔ گزشتہ ایک برس سے چیف منسٹر نے بارہا یہ اعلان کیا کہ نامزد عہدوں پر جلد ہی تقررات کئے جائیں گے لیکن اقلیتی اداروں پر تقررات کا عمل کسی نہ کسی نہ بہانے ٹال دیا گیا۔ اقلیتی قائدین نے شکایت کی کہ اعزازات کی پیشکشی میں پارٹی اور تلنگانہ تحریک سے غیر متعلقہ افراد کو ترجیح دی گئی جس سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ریاستی اور ضلعی سطح پر اعزازات کے سلسلہ میں ناموں کے انتخاب کا اختیار وزراء اور بعض عہدیداروں کو دیا گیا تھا جنہوں نے اپنے قریبی افراد کے نام پیش کرتے ہوئے انہیں اعزازکیلئے منتخب کرلیا۔ تلنگانہ تحریک میں اقلیتوں کی مناسب حصہ داری کے باوجود اعزازات کی پیشکشی میں انہیں نظرانداز کرنا پارٹی اقلیتی قائدین کے حوصلوں کو پست کرسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سلسلہ میں جب اقلیتی قائدین نے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی سے شکایت کی تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی کہ اعزازات پیش کئے جانے والے افراد کے ناموں سے وہ خود لاعلم ہیں۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ ریاستی سطح پر چیف منسٹر کے ہاتھوں پریڈ گراؤنڈ پر جو اعزازات دیئے گئے ان میں صرف ایک نام ڈپٹی چیف منسٹر کا سفارش کردہ ہے جبکہ دیگر افراد کے ناموں کو حکومت کی حلیف جماعت کی سفارش اور بعض اعلیٰ عہدیداروں کی منظوری سے شامل کیا گیا۔ اقلیتی قائدین کی اس بے چینی اور ناراضگی کو چیف منسٹر کے علم میں لاتے ہوئے انہیں انصاف دلانے کا تیقن دیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹی آر ایس کے اقلیتی قائدین کو کب انصاف مل پائے گا۔