شہر کیسا ہوا ویران یہ دیکھا تم نے
زندگی کھوچکی پہچان یہ دیکھا تم نے
جشن آزادی اور ہندوستانی فضا
ملک میں جشن آزادی کا ماحول ہمیں عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے لیکن جس مقصد سے اپنے ملک کو آزاد کرایا گیا تھا اب اس کا گلا گھونٹا جارہا ہے ۔ جے این یو کے طلباء کا عرصہ حیات تنگ کرنے والی کارروائیوں کا تسلسل اتنا سنگین ہوتا جارہا ہے کہ اب گولیاں بھی چلائی جانے لگی ہیں ۔ نجیب احمد کی گمشدگی کے بعد اس طالب علم کا کوئی اتہ پتہ چلایا نہیں گیا ۔ عمر خالد کو نشانہ بنانے والوں نے اب ان پر بندوق تان لی ہے ۔ شہلا رشید نے اپنی جان کو لاحق خطرہ کی شکایت کی ہے ۔ مرکز میں برسر اقتدار حکومت کی ناک کے نیچے ہی یہ سب کچھ ہورہا ہے یا کروایا جارہا ہے ۔ فرقہ پرستوں اور ان کا حامی میڈیا اتنا جھوٹ پھیلا چکا ہے کہ اب سچ پناہ مانگتا پھررہا ہے ۔ ان دنوں ہندستانی الکٹرانک میڈیا کا ایک ٹولہ اپنے آر ایس ایس بی جے پی آقاؤں کی ترجمانی میں اس قدر دور نکل گیا ہے کہ ملک کو فرقہ پرستی کی ایک نئی بدترین نہج دی جارہی ہے ۔ اس میڈیا کا پسندیدہ موضوع مخالف مسلم خبر رسانی ہے ۔ پرگراموں کے اینکر اور بحث و مباحث میں حصہ لینے والوں نے اس قدر شور مچا رکھا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ابنائے وطن کے ذہنوں میں پیوست کردی جارہی ہے ۔ دن بھر کئی چیانلس اپنے جس ایک نکاتی ایجنڈہ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں وہ مسلم ٹارگٹ ہے ۔ اس کالے کوے والے میڈیا کو بی جے پی اور آر ایس کے ذمہ داروں نے کام پر لگادیا ہے ۔ جو جھوٹ بول کر اپنا پیٹ بھرتا ہے ۔الکشن جیتنے اور دوبارہ الیکشن لڑنے کے بعد یہ سیاسی ٹولہ اپنے فاضل میڈیا گروپ کو جو بیکار بیٹھا تھا کام سے لگادیا ہے ۔ وہ ملک کے بھولے بھالے شہریوں کا سر کھجاتا رہتا ہے ۔ اس حکومت کو اپنا سر کھوجانے کی فرصت نہیں ملتی مگر اس نے دوسروں کو سرکھجانے کی ذمہ داری ہے ۔ عوام کو یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ اس ملک میں مسلمان ایک بوجھ ہیں ۔ اس لیے نہیں ستایا جائے ، تنگ کیا جائے ، دہلی میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلباء کے خلاف خاص کر عمر خالد کے خلاف کارروائی کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے سوا کچھ انہیں ہے ۔ حکومت کی خرابیوں اور زیادتیوں کی جو کوئی نشاندہی کرے گا اسے عمر خالد کی طرح نشانہ بناکر بدنام کیا جائے گا یا پھر نجیب احمد کی طرح غائب کردیا جائے گا ۔ جب کوئی احتجاج کرے گا تو اس پر قومی دشمن کا الزام عائد کر کے بدنام کردیا جائے گا ۔ نجیب احمد کے ساتھ کیا ہوا یہ آج تک پتہ نہیں چل سکا ۔ سی بی آئی نے سپریم کورٹ سے یہ کہا کہ نجیب احمد کا معاملہ واضح نہیں ہے ۔ وہ نجیب کا اتہ پتہ معلوم کرنے سے قاصر ہے ۔ لیکن سی بی آئی کو جو چیز نہیں معلوم وہ بات بی جے پی اور اس کے میڈیا کو ضرور معلوم ہوتی ہے ۔ نجیب احمد کے تعلق سے گمراہ کن پیام کو عام کرنے سوشیل میڈیا پر یہ خبر پھیلا دی گئی کہ نجیب احمد نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور کالے کوے والے میڈیا نے یہ بھی بتایا کہ نجیب احمد نے خود اپنے ہاتھ سے ماں کو خط لکھ کر اپنی داعش میں شمولیت کی تصدیق کردی ہے ۔ یہ ایک ایسی گمراہ کن مہم ہے جو سوشیل میڈیا اور بکاؤ میڈیا کا استعمال کر کے مسلمانوں کو کمزور اور بدنام کر کے ان کے حوصلے پست کردئیے جائیں ۔ عمر خالد پر فائرنگ کرنے والا فرار ہوگیا مگر اس کا جھوٹ پھیلانے والا میڈیا اپنی طرز کی کہانی پیش کردیا ہے ۔ ہر بات کو متنازعہ موڑ دینے میں ماہر حکومت اور اس کا بکاؤ میڈیا کو اس حقیقت کا علم ہونا چاہئے کہ جھوٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔ اب چار سال بعد مودی حکومت کا جھوٹ آشکار ہوچکا ہے ۔ سماج کو مختلف گوشوں میں تقسیم کر کے عوام کی فرقہ پرستی کے خطوط پر ذہن سازی کی جارہی ہے ۔ عمر خالد ، شہلا رشید اور نجیب احمد کے علاوہ دیگر ان تمام طلباء کو قوم دشمن قرار دیا جارہا ہے جنہوں نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی ، عمر خالد پر حملہ خوش بختی سے ناکام ہوا لیکن گوری لنکیش ، ایم ایم کلبرگی ، گویند پنسرے اور ان کی طرح دیگر کئی افراد خوش نصیب ثابت نہیں ہوئے جنہیں حکمران طاقتوں نے ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلادی ۔ دارالحکومت دہلی میں طلباء کی زندگیوں کو تحفظ حاصل نہیں ہے ۔ یہ فائرنگ یوم آزادی تقاریب کے لیے سخت سیکوریٹی انتظامات کے دوران کی گئی ہے جب کہ پوری قوم اپنی آزادی کا جشن منانے کی تیاری کررہی ہے ۔ پارلیمنٹ کے قریب طلباء کو گولی سے مارنے کی کوشش کی گئی کیا یہ آزادی حاصل کرنے کی سزا ہے ۔ آزاد ہند کے لیے جدوجہد کرنے والے مہاتما گاندھی کو گولی سے مار دینے والی طاقتوں کو جب اقتدار بھی مل چکا ہے تو وہ دیگر عام شہریوں کو کیا بخشیں گی ۔ لیکن آزاد ہند کے باشندوں کو ایک اور آزادی کی جدوجہد شروع کرنی ہوگی اور اس ملک کو فرقہ پرستوں ، تنگ نظروں ، بدنگاہی والے کالے کوؤں اور آستین میں چھپے سانپوں سے آزادی دلانی ہوگی ۔۔