جرمنی کے یہودی قتل عام کے مہلوکین کے گمشدہ گیت بازیاب

بیگار کیمپو ںمیں یہودی قیدیوں کے تحریر کردہ گیت 50 سال بعد دریافت
واشنگٹن ۔ /5 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) 70 سال میں پہلی بار نازی بیگار کیمپوں میں زندہ بچ جانے والے یہودیوں کے گیت بازیاب کرلئے گئے ہیں ۔ یہ طویل مدت سے گمشدہ تھے اور انہیں ساز پر پیش کیا جارہا ہے ۔ طویل عرصہ سے سمجھا جارہا تھا کہ یہ گیت گم ہوگئے ہیں ۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں جب کہ اتحادی افواج نے نازی بیگار کیمپوں سے قیدیوں کو رہا کروایا تھا ۔ ان کی ایک فلم تیار کی گئی تھی جس میں انہوں نے ان پر ڈھائے ہوئے مظالم کا انکشاف کیا تھا ۔ جلد ہی پوری دنیا میں زندہ بچ جانے والے افراد کی مختصر تعداد کے گیتوں کی ساز پر پیشکش کا لاکھوں افراد نے مشاہدہ کیا ۔ 1946 ء میں محقق ڈیویڈ بوڈر نے کم از کم زندہ بچ جانے والے 130 یہودیوں کا فرانس ، سوئزرلینڈ ، اٹلی اور جرمنی میں 9 زبانوں میں انٹرویو دیا تھا ۔ اس کے بعد ایک وائر ریکارڈر عصری آلہ کی مدد سے تیار کیا گیا تھا ۔ بوڈر نے گیتوں کے اس اسٹیل وائر ریکارڈر کو محفوظ کردیا تھا ۔ 1967 ء سے امریکہ میں اس کی اطلاع جاری تھی ۔ حال ہی میں یہ گیت بازیاب ہوئے اور انہیں دو زبانوں میں ساز پر پیش کیا گیا ۔ اس دریافت کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ 50 سالہ تاریخ کی سب سے حیرت انگیز دریافت ہے۔امریکی محقق ڈیویڈ بیکر یونیورسٹی آف اکرون میں کہا کہ یہ گیت ہینن ویلے فرانس کے پناہ گزین کیمپ میں تحریر کئے گئے تھے ۔ قیدیوں کو نازیوں نے مجبور کیا تھا کہ ان میں سے چند گیت گاکر سنائیں ۔جبکہ ان سے روزانہ زبردستی محنت کروائی جاتی تھی ۔ بیکر نے کہا کہ ان گیتوں کی مصروفیت سے دنیا کو روشناس کروانا ضروری تھا ۔کیونکہ 20 ویں صدی کی تاریخ کا یہ ایک نمایاں واقعہ ہے ۔ یہ گیت بیگار کی تقلید کو کم کرنے کے مقصد سے تحریر کئے گئے تھے اور گائے جاتے تھے ۔ یہ انسانی عزم و ہمت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ حالانکہ بیگار کیمپوں میں مقیم یہودی مایوس تھے۔ بے گھر تھے اور بے سہارا بھی تھے ۔ یہ گیت نازیوں کے ظلم کی داستانیں بیان کرتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اقتدار کے نشہ کی وجہ سے انسان کتنا ظالم ہوجاتا ہے ۔ اس کے باوجود وہ انسانی عزم و ہمت پر غالب نہیں آسکتا ۔ مصیبت کے اس دور میں بھی اولوالعزم افراد اپنی تکلیف کے بارے میں گیت تحریر کرتے ہیں ۔