کہیں بنیں کوئی سورج ، دھواں دھواں ہے فضاء
خود اپنے آپ سے باہر نکل سکو تو چلو
جرائم و منشیات مافیا
’’حیدرآباد‘‘ ماحولیاتی آلودگی میں چوتھا مقام حاصل کرنے کے بعد جرائم کے معاملے میں بھی آگے ہے تاہم جرائم کی شرح کم ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے حیدرآباد پولیس کمیونٹی کے سی سی ٹی وی پراجکٹ کو کامیاب قرار دینے کے باوجود جرائم کا گراف یہ واضح کرتا ہے کہ حیدرآباد اِن دنوں جرائم پیشہ افراد کے لئے محفوظ آماجگاہ بن رہا ہے خاص کر منشیات کا کاروبار کرنے والوں نے شہر حیدرآباد کو ایک منفعت بخش مرکز سمجھ لیا ہے۔ حیدرآباد کو ملک کے 19 میٹرو پولیٹن شہروں میں ایک محفوظ شہر ہونے کا درجہ دیا گیا ہے لیکن عصمت ریزی، خواتین کی اسمگلنگ، دھوکہ دہی کے کیسوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ حیدرآباد کو عالمی شہر کا درجہ ملنے کی بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے کیوں کہ لا انفورسمنٹ حکام کی جانب سے کئی کوششوں کے باوجود شہر میں منشیات کا کاروبار کرنے والوں پر قابو پایا نہیں جاسکا۔ ملک کے تمام حصوں سے تعلق رکھنے والے منشیات کے کاروبار کے لئے اس شہر کو وسیع تر مارکٹ متصور کررہے ہیں۔ گزشتہ مہینوں حکام کو ٹالی ووڈ کی بڑی شخصیتوں کے نام بھی منشیات کی لت میں ملوث پائے گئے تھے۔ اس کے علاوہ تلنگانہ کو سائبر کرائم میں چوتھا رینک حاصل ہے۔ دھوکہ دہی کے کیسوں میں تلنگانہ کو مہاراشٹرا کے بعد دوسرا نمبر دیا گیا ہے۔ دہلی کے بعد حیدرآباد دوسرا خطرناک میٹرو پولیٹن شہر ہے جہاں شادی شدہ خواتین کے لئے خطرناک سمجھا جارہا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں بی جے پی اور دیگر نے تلنگانہ میں بڑھتے کرائم پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کی ہے لیکن اس نشاندہی کے باوجود حکومت اور لاء انفورسمنٹ ادارے جرائم پر قابو پانے سے قاصر ہیں۔ اغوا کے واقعات خاص کر کم عمر لرکیوں کے اغواء کے معاملے سامنے آئے ہیں جنھیں یادگیری گٹہ میں قحبہ خانوں میں رکھ کر جسم فروشی کروائی جاتی رہی ہے۔ تلنگانہ کے مہذب معاشرہ میں اس طرح کے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ ایک طرف حیدرآباد کو رہنے کے قابل بہترین شہر ہونے کا موقف حاصل ہے تو دوسری طرف سرکاری مشنری کی عدم کارکردگی سے بڑھتے جرائم کو نوٹ نہیں کیا جارہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ محکمہ پولیس نے کرائم پر قابو پانے کے لئے پی ڈی ایکٹ جس حکمت عملی میں اختیار کرلی ہے اور 2014 ء سے پولیس نے 600 کیس درج کرکے جیل میں ڈالا ہے۔ شہر میں ہونے والے بڑے جرائم جیسے قتل اور سرقہ کی وارداتیں کرنے والے مجرمین کے ساتھ سختی سے نمٹنے میں پولیس نے کوئی کسر نہ رکھنے کا دعویٰ کیا ہے۔ پی ڈی ایکٹ کے نفاذ سے جرائم کی کمی سے متعلق تفصیل پیش کرتے ہوئے محکمہ پولیس نے اپنی کارکردگی کی بہتر تصویر پیش کی ہے جہاں تک منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کا سوال ہے پولیس کو اس سلسلہ میں بنیادی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ منشیات جو کاروبار کرنے والوں نے بڑی شخصیتوں سے لے کر چھوٹے لیبر طبقہ تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ یہ لوگ تعمیراتی ورکرس، روزانہ کام کرنے والے مزدوروں، آٹو رکشا ڈرائیورس کو منشیات کے عادی بناتے جارہے ہیں تاکہ ان کے کاروبار میں وسعت پیدا کی جاسکے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ منشیات کا کاروبار کرنے والے پہلے اپنے لئے گاہک مضبوط بناتے ہیں پھر کاروبار کو وسعت دیتے ہیں۔ اگر منشیات کا استعمال کرنے والے ہی نہ ہوں تو ان کے کاروبار کو فروغ دینا مشکل ہوگا۔ اس لئے شہر حیدرآباد میں روٹی روزی کے لئے نقل مکانی کرنے والے غریب مزدوروں اور لیبر طبقہ کو نشانہ بنایا جارہا ہے جو بڑی سماجی خرابی بن سکتی ہے لہذا پولیس اور لا انفورسمنٹس کے اداروں کو اس طرح کے منشیات کے چلن کو روکنے کیلئے وسیع تر جال پھیلانا ہوگا۔ منشیات کی اس کڑی کو توڑتے ہوئے پولیس اپنی مہم میں شدت پیدا کرے۔ یہ منشیات پہلے ہی ٹالی ووڈ سے لے کر اسکولوں اور کالجوں میں پہونچائے جاچکے ہیں اب یہ مزدور پیشہ افراد اور غریبوں کو اپنی آغوش میں لے کر اس لعنت سے دوچار کرنے جارہے ہیں۔ منشیات کے اس مافیا کو کچلنے کیلئے حکومت کو سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ شہر کے عالمی امیج کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے حکومت اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرے۔ فلم اسٹارس کا معاملہ سیاسی دباؤ کے ذریعہ نظرانداز کردیا گیا ہے لیکن یہ ریاست کے مستقبل کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔ منشیات مافیا کو یوں کھلی چھوٹ دینا خطرناک ہوسکتا ہے۔
آیا ٹرمپ کے مواخذہ سے اسٹاک مارکٹ تباہ ہوگی؟
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے جنسی اسکینڈل کے بعد امریکہ میں ایک بار پھر مواخذہ کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ سابق صدر امریکہ بل کلنٹن اور مونیکا لیونسکی کے تعلقات کے افشاء کے بعد کلنٹن کو مواخذہ سے گزرنا پڑا تھا کل اور آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس مرتبہ امریکی صدر ٹرمپ کے جارحانہ رویہ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا ٹرمپ کے مواخذہ سے اسٹاک مارکٹ تباہ ہوجائے گی؟ ٹرمپ کے ان خواتین کو رقوم ادا کرنے کے معاملہ کے بعد جن کے ساتھ ان کے تعلقات رہے ہیں مواخذہ کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ ٹرمپ کے خلاف امریکی سیاست میں صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ٹرمپ کو اخلاقی طور پر امریکی صدر کے عہدہ کے لئے نااہل قرار دیا جانے کا مطالبہ ہورہا ہے۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجہ میں کہہ دیا ہے کہ اگر ان کے جنسی معاملوں پر مواخذہ کیا گیا تو شیئر مارکٹ گرجائے گا گویا ان کی بداعمالیوں کا خسارہ شیئر مارکٹ کو بھگتنا پڑے گا۔ مواخذہ کا مطلب ہے کہ اگر ٹرمپ کے خلاف الزامات کانگریس میں لائے جائیں تو ان پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ نئے سیاسی بھونچال کا سامنا کرنے والے صدر ٹرمپ نے واضح کیاکہ ان کے مواخذہ سے امریکہ کو معاشی سنگینیوں کا شکار ہونا پرے گا۔ لیکن ماہرین نے اس تعلق سے دو نظیریں پیش کی ہیں کہ امکانی مواخذہ پر مارکٹ کا ردعمل کیا ہوگا۔ 1974 ء میں صدر رچرڈ نیکسن کو بھی مواخذہ کا سامنا تھا جنھوں نے واٹر گیٹ اسکینڈل کے افشاء پر استعفیٰ دیا تھا۔ اس کے بعد 1998 ء میں صدر بل کلنٹن کے مواخذہ کے بعد اسٹاک مارکٹ پر شدید دباؤ پڑا تھا لیکن بعد کے دنوں میں امریکی اسٹاک مارکٹ میں بہتری آئی اور نومبر 1998 ء میں ہی مارکٹ میں زبردست اُچھال آیا تھا۔ اس مرتبہ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کا اسٹاک مارکٹ پر اثر پڑتا ہے تو یہ دیرپا رہے گا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔