مسلم نوجوانوں کو برادران وطن سے قریب ہونے کی ضرورت
سیاست کی ملی خدمات مثالی ، الجزیرہ قطر کے نوجوان عہدہ دار محمد عبدالعلام سے گفتگو
حیدرآباد ۔ 2 ۔ ستمبر : کم عمری میں اگر کسی کو بہ یک وقت کئی زبانوں پر عبور حاصل ہوجائے ، ان زبانوں میں وہ شاعری کرنے لگے ، اپنی تحریروں کے ذریعہ قوم کو جھنجھوڑنے کا کام کرتا رہے ، ملت کی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کی تڑپ کا طوفان اس کے دل میں ٹھاٹھیں مارتا رہے ۔ نوجوانوں کو قرآن و حدیث پر عمل کرنے اور دینی علوم دوسروں کو سکھانے کی ترغیب دیتے ہوئے مطمئن زندگی کو یقینی بنانے کی دعوت دے اور جس کے دل میں اپنی مادری زبان کے لیے تڑپ کوٹ کوٹ کر بھری رہے تو ایسے نوجوان کو ہم یقینا ملک و ملت کا اثاثہ ہی کہیں گے ۔ قارئین ہم آج آپ کی ملاقات قطر میں مقیم اور الجزیرہ انگلش ٹی وی چیانل میں اہم عہدہ پر فائز حیدرآبادی نوجوان محمد عبدالعلام سے کروا رہے ہیں ۔ 32 سالہ اس نوجوان میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو راقم الحروف نے سطور بالا میں تحریر کیا ہے ۔ اپنی عمر کے چار سال سے ہی ملائیشیا میں رہنے اور وہیں سے تعلیم مکمل کرنے والے محمد عبدالعلام انگریزی اور ملائیشیائی زبان مالے پر غیر معمولی عبور رکھنے کے باوجود اپنی مادری زبان اردو سے بہت دور تھے لیکن انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا میں اسلامی افکار کے پروفیسر ڈاکٹر محمد ممتاز علی اور اس یونیورسٹی میں اسلامی سیاسی افکار اور امور خواتین کی اسوسی ایٹ پروفیسر رہیں ڈاکٹر زینت کوثر کے اس ہونہار فرزند نے اردو سے دوری کی اپنی کمزوری پر بہت جلد قابو پالیا اردو سیکھنے کے لیے انہوں نے رات دن ایک کردئیے نتیجہ میں آج ان کا قطر میں اردو کے نامور شعراء میں شمار ہوتا ہے ۔ ماضی میں اردو سے اپنی دوری اور عدم واقفیت کے بارے میں سوال پر محمد عبدالعلام نے بتایا کہ ان کے ذہن میں بار بار یہ خیال آتا رہتا کہ آخر میں اردو سے اتنا دور کیوں ہوں ؟ اور اردو کا زوال ایک طرح سے برصغیر میں مسلمانوں کے زوال کی ایک علامت ہے ۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ملائیشیا میں اردو بہت کم بولی جاتی ہے ۔ اردو میں جو جان ہے وہ دوسری ہندوستانی زبانوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف اردو سیکھی بلکہ اس زبان میں شاعری بھی شروع کردی ۔ وہ روئیس ممتاز تخلص رکھتے ہیں ۔ اس بارے میں محمد عبدالعلام بتاتے ہیں کہ شاعری اور ادب سے قربت انہیں ورثہ میں ملا ہے ۔ ان کے نانا مولانا مقبول احمد جامعی نامپلی یکمینار کی مسجد میں خطیب تھے اور برسوں بلدی کونسلر بھی رہے وہ امام الھند مولانا ابوالکلام آزاد کے دست راست تھے ۔ اسی طرح محمد عبدالعلام کے دادا محمد محبوب علی بھی حسن اتفاق سے گولکنڈہ کی قاضی گلی کی بڑا بازار مسجد میں امامت کیا کرتے تھے ۔ نانا اپنے دور کے ممتاز شاعر تھے چنانچہ دو ماموؤں میں بھی شاعری کے وہی گن آگئے ۔ راشد محمود اور خالد اقبال بھی اچھے شاعر ہیں ۔ محمد عبدالعلام کے مطابق ابتداء میں انہوں نے انگریزی میں شاعری کی اور 30 سے زائد انگریزی نظمیں لکھی ہیں جن میں سے کچھ نظمیں ریڈینس ویکلی میں شائع کی گئیں ۔ اردو کے شوق اور دین سے لگاو نے انہیں شاعر مشرق علامہ اقبال کے کلام کی جانب راغب کیا اور اپنے ادبی سفر کے دوران سب سے پہلے علامہ اقبال کا کلام ہی انہوں نے پڑھا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں محمد عبدالعلام نے جو دنیا کے مقبول ترین ٹی وی چیانل الجزیرہ کے دفتر مینجنگ ڈائرکٹر میں آن لائن نیوز کوآرڈینٹر ہیں بتایا کہ انہوں نے علامہ اقبال ، غالب ، میر ، حالی ، داغ ، جوش ملیحہ آبادی ، جگر ، فیض احمد فیض ، خمار بارہ بنکوی ، ساحر لدھیانوی ، جون ایلیا ، احمد فراز ، اور کلیم عاجز کے بشمول 15 شعرا کو بہت خوب پڑھا ہے ۔ اور ان شعراء کی کم از کم پندرہ پندرہ نظمیں اور غزلیں انہیں ازبر یاد ہیں ۔ انہوں نے مزید بتایا کہ علامہ اقبال کی شاعری زمانے میں انقلاب پیدا کردیتی ہے ۔ ان کا کلام قلب و روح کو گرما دیتا ہے ۔ اگرچہ وہ الجزیرہ انگلش نیوز چیانل میں اہم عہدہ پر فائز ہیں اپنی مصروفیات کے باوجود محمد عبدالعلام قطر میں کئی ادبی و فلاحی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور کم از کم تین ادبی انجمنوں کے میڈیا سکریٹری بھی ہیں ۔ قطر میں ہونے والے عالمی مشاعروں میں بھی یہ 22 سالہ حیدرآبادی شاعر اپنے کلام کے ذریعہ شرکاء کے دل گرما دیتا ہے ۔ بزم اردو قطر کے گولڈن جوبلی مشاعرہ میں انہیں بزرگ شاعر کلیم عاجز کے ساتھ مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ اس طرح گذشتہ سال جون میں جب جشن وسیم بریلوی منایا گیا اس موقع پر بھی انہوں نے اپنے اصلاحی کلام کے ذریعہ شعراء و شرکاء کو متاثر کیا ۔ بزم اردو قطر ، انڈیا اردو سوسائٹی قطر ، گذر گاہ خیال اور حلقہ رفقائے ہند قطر کی سرگرمیوں میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں وہ حلقہ رفقاء ہند قطر مطار قدیم ونگ کے صدر بھی رہ چکے ۔ اس کے علاوہ وہ قطر میں ہندوستانی برادری کے لیے کام کرنے والے امدادی ادارہ ICBF کے تاحیات رکن ہیں ۔ محمد عبدالعلام اقبال اکیڈیمی قطر سے بھی وابستہ ہیں ۔ مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی حالت کے بارے میں سوال پر انہوں نے بتایا کہ مسلم نوجوان تعلیم پر خصوصی توجہ دیں ۔ یہ سوچ کر نہ پڑھیں کہ ہمیں پڑھ لکھ کر یا ڈگریاں حاصل کرتے ہوئے امریکہ ، لندن ، دوبئی ، سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک کو جانا ہے بلکہ پڑھائی یہ سوچ کر کریں کہ ہمیں اپنے متعلقہ شعبہ میں نمبر ون رہنا ہے ۔ جس نوجوان میں قوم کی خدمت کا جذبہ ہوگا اس سے اس کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور یہی نکھار ہمیں آگے لے جائے گا ۔ ان کے خیال میں اپنی کمیونٹی کی فکر رکھنے والے نوجوانوں میں قیادت خطابت شجاعت کی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ ہماری نوجوان نسل کو یہ دیکھنا چاہئے کہ کونسا کام ہم اچھا کرسکتے ہیں ۔ مسلمانوں کی اپنے برادران وطن سے دوری پر فکر کا اظہار کرتے ہوئے محمد عبدالعلام نے کہا کہ ہم خود کو ہندوؤں سے دور کرلیتے ہیں اپنے بچوں کو مسلم زیر انتظام اسکولوں میں شریک کراتے ہیں ۔ ایسا ہی رہا تو یہ فطرت انسانی ہے کہ ہر انجان آدمی سے ڈر لگتا ہے ایسے میں ہم دوسروں کے لیے اور دوسرے ہمارے لیے انجان بنے رہیں گے ۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کیوں کہ جو خود کے بارے میں سوچتا ہے وہ دوسروں کی فکر نہیں کرتا۔ واضح رہے کہ محمد عبدالعلام کے خاندان کو ’ ملٹی نیشنل خاندان ‘ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ ان کے ایک بہنوئی ڈاکٹر آنند کمار ( سعید عبداللہ ) کیمیکل انجینئرنگ کے اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور دوسرے بہنوئی ترکی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ الجزیرہ کے بارے میں عبدالعلام کا کہنا ہے کہ حیدرآباد میں جو کام جناب زاہد علی خاں کی قیادت میں روزنامہ سیاست کررہا ہے وہی کام ا لجزیرہ کررہا ہے اور وہاں مینجر عماد موسیٰ اور حیدرآباد کے یاسر خاں جیسے قابل ترین لوگ ہیں ۔۔ mriyaz2002@yahoo.com