جذبۂ قربانی سے پہلوتہی کا نقصان

ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

مرقع ہر خوبی و زیبائی صلی اللہ علیہ وسلم، آپﷺ کے اصحاب، تابعین اور تبع تابعین کے ہر عمل میں جذبہ قربانی اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ پایا جاتا تھا۔ اسی لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ادوار کو ’’خیر القرون‘‘ کے لفظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کو عراق کی کاشت سے چار پانچ لاکھ اور سرات کی کاشت سے کم و بیش دس ہزار دینار وصول ہوتے تھے۔ آپ وہ رقم ضرورت مندوں پر خرچ کردیا کرتے۔ کنواری خواتین، بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کے نکاح کا بندوبست فرمایا کرتے۔ محتاجوں کی حاجت روائی فرمایا کرتے۔ مقروض افراد کو قرض سے چھٹکارا دلواتے۔ (طبقات ابن سعد)

ادوار خیر القرون کے بعد اس جذبہ قربانی میں بتدریج گراوٹ آتی گئی اور حقیقی جذبہ قربانی کی جگہ رسمی جذبہ قربانی نے لے لی اور آہستہ آہستہ یہ امت مسلمہ جس کو اللہ تعالی نے امامت کے لئے پیدا فرمایا ہے، گراوٹ اور پستی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ عمل سے بیگانگی کے باعث آج ہم تنزل و انحطاط کی اس نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں، جس کی اسلامی تاریخ کی گزشتہ چودہ صدیوں میں مثال ملنی مشکل ہے۔ تعلیمی میدان اور معیاری پیشوں میں صدیوں تک امامت کا ناقابل تسخیر فریضہ انجام دینے والی یہ امت اب تن آسانی کا شکار ہو گئی ہے اور کھیل، تفریح اور لایعنی کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنا اس کا شعار بن گیا ہے۔ واضح رہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے عالم، صوفی، مدبر اور مصلح نے اپنا حق رکھتے ہوئے تعلیمات اسلامی کی پاسداری میں اپنے حق کو قربان کرتے ہوئے دست بردار ہو گئے، جس کے سبب غیر مسلم نے تائب ہوکر اسلام کو اپنالیا۔ ہمارا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ہر موقع پر قرآن مبین کی تعلیمات اور حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو قربان کرتے جا رہے ہیں، جس کے سبب زندگی کے ہر شعبہ میں ہمیں ذلت و خواری نصیب ہو رہی ہے، جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کا طرز عمل ہماری اس روش کے بالکل برعکس تھا۔ آج ہمارا یہ عالم ہے کہ اگر ہم حق پر نہ بھی ہوں تو صرف اس لئے باطل پر ڈٹ جاتے ہیں کہ کہیں ہماری انا کو ٹھیس نہ پہنچے یا ہماری دنیوی ساکھ متاثر نہ ہو جائے اور ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوتے ہیں کہ ہم کسی بھی وقت داعی اجل کو لبیک کہہ سکتے ہیں، جہاں صرف ہمارے اعمال کام آنے والے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے دور میں جذبہ قربانی اپنے عروج پر تھا، جس کے باعث مسلمان کم تعداد میں ہونے کے باوجود کئی ایک ممالک فتح کئے، جب کہ ہمارے زمانے میں کسی ایک چھوٹے مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومت یا ارباب اقتدار سے منوانے کے لئے برسوں انتظار کرنا پڑ رہا ہے، اس کے باوجود بھی کئی مسائل جوں کے توں باقی رہ جاتے ہیں۔ یعنی ہمارے کسی قول میں نہ تو دم ہے اور نہ ہی عمل میں بھرم۔
اللہ تعالی نے کسی کو مال دیا ہے تو کسی کو ذہن، کسی کو حسن دیا ہے تو کسی کو کردار، کسی کو فنکاری دی ہے تو کسی کو فکرونظر کی گہرائی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان اخوت و بھائی چارگی کا رشتہ قائم فرمایا، تاکہ ہم خدا کی تمام تر نعمتوں کو بطریق تعاون استعمال کرسکیں۔ لیکن صد افسوس کہ ہم ہر چیز کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر ہمارا ہی حق ہے کسی اور کا نہیں۔ ہمارے معاشرے میں کئی ایسے ذہین طلبہ ہیں، جن کو اللہ تعالی نے خداداد اختراعی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ اگر وہ تعلیم مکمل کرلیں تو قوم و ملت کا بہترین اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن مالی تنگی کے باعث وہ اپنا رشتہ تعلیم سے منقطع کرلیتے ہیں۔ جب کہ وہیں کچھ ایسے کند ذہن طلبہ بھی ہیں، جن کے والدین انتہائی رئیس اور مالدار ہیں۔ والدین جانتے ہیں کہ ان پر پیسہ خرچ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، اس کے باوجود ان کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے بے دریغ پیسہ خرچ کرتے ہیں اور جیب خرچ کے لئے بے حساب دولت فراہم کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے طلبہ نہ صرف تعلیم میں پیچھے رہ جاتے ہیں، بلکہ پیسہ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں نت نئے خرافات اور برائیوں کو جنم دیتے ہیں، جو قوم و ملت کے لئے باعث عار بن جاتے ہیں۔ اگر ایسے والدین میں جذبہ قربانی پیدا ہو جائے اور وہ اپنے بچوں کی جیب خرچ کم کرکے اپنے کند ذہن بچوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے بیرونی ممالک بھیجنے کی بجائے ذہین طلبہ پر یہ رقم خرچ کریں تو ایک طرف ہمارا تعلیمی گراف اوپر جائے گا اور دوسری جانب عیش پسند طلبہ اور ان کی اخلاقی گراوٹ میں کمی واقع ہوگی۔

ہمارے معاشرے میں جہاں ایک طرف غربت کے باعث کئی ایک جرائم جنم لے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف اہل ثروت اپنے کروڑہا روپئے بینکوں میں منجمد کئے بیٹھے ہیں، جس سے دیگر اقوام صد فیصد فائدہ اٹھا رہی ہیں، جب کہ یہ ہماری قوم کا حق ہے۔ کئی لوگ خانگی بینکوں اور فینانس کمپنیوں سے دھوکہ کھا چکے ہیں اور بعض لوگ تو اپنی زندگی کا سرمایہ تک گنوا چکے ہیں۔ کاش ہم میں جذبہ قربانی ہوتا اور یہ نوبت نہ آئی ہوتی! لیکن اس کے باوجود ہم خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر یہ لوگ بینکوں میں رکھنے کی بجائے مالی منفعت کو قربانی کرتے ہوئے ان غریب و نادار لوگوں پر نفع بخش اسکیم کے تحت خرچ کریں تو ہم ان برائیوں پر قابو پانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اگر ہمارے کردار میں صحابہ کرام کا جذبہ قربانی پیدا ہو جائے تو یقیناً تمام ملی، دینی، معاشی، اخلاقی، سیاسی، تجارتی، رفاہی اور علمی مسائل از خود ختم ہو جائیں گے۔ ہم خود اتنے خود مکتفی ہو جائیں کہ ہمیں کسی اور کی مدد کی ضرورت ہی نہ ہوگی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے اور اس پر صدق دل کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین)
٭٭٭