اصلاح خانے صنعت میں تبدیل ، قدیم اصلاح خانے تکلیف کا شکار
حیدرآباد۔27اپریل (سیاست نیوز) شہر میں بڑھ رہے ماڈرن اصلاح خانوں کی بڑھتی تعدادقدیم طرز کے اصلاح خانوں کے لئے تکلیف کا سبب بننے لگی ہیں اور عصری اصلاح خانوں میں بال کٹوانے کے ساتھ فیشیل وغیرہ کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ اصلاح خانو ںمیں اب تک بال کٹوانے کے علاوہ ناخن و غیرہ بھی تراشے جاتے تھے لیکن بتدریج ناخن تراشنے کا رواج ختم ہونے لگا ہے اور اب تو کسی بھی اصلاح خانہ میں ناخن نہیں تراشے جا رہے ہیں۔ دونوں شہروں میں فیشن کے نام پر کٹوائے جانے والے بالوں کے لئے نوجوان سینکڑوں بلکہ بعض مقامات پر ہزاروں روپئے اداکر رہے ہیںنوجوان بالخصوص مسلم نوجوانوں میں بڑھ رہے اس رجحان کو دیکھتے ہوئے پرانے شہر کے علاقوں میں بھی عصری اصلاح خانے کھولے جانے لگے ہیں اور ان اصلاح خانو ں میں جس طرح کے بال فیشن کے نام پر کاٹے جا رہے ہیں وہ سنت کے خلاف ہیں اور ان نوجوانو ںکو روکنے والا کوئی نہیں ہے بلکہ نوجوان جس طرح کے بال کٹوارہے ہیں اسے فیشن کا نام دینے لگے ہیں ۔ دونوں شہروں میں موجود قدیم طرز کے اصلاح خانو ںکے مالکین کا کہنا ہے کہ بال کاٹنا بھی ایک صنعت کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس صنعت کو فیشن کے نام پر کافی فروغ حاصل ہونے لگا ہے لیکن اس صنعت میں دیگر ریاستوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی کثرت ہونے لگی ہے۔ قدیم طرز کے اصلاح خانوں کے مالکین کا کہنا ہے کہ نئے عصری اصلاح خانہ کارپوریٹ طرز پر چلائے جا رہے ہیں اور ان اصلاح خانوں میں نوجوانو ںکو سہولتوں کے نام پر بال کاٹنے کے ساتھ مشین کے ذریعہ مساج اور بال کو رنگنے کے علاوہ فیشیل جیسی سہولتیں فراہم کی جانے لگی ہیں لیکن پرانے اصلاح خانو ںمیں اب تک بھی ناخن تراشنے کا کام انجام دیا جاتا رہا ہے لیکن اب جبکہ نئے اصلاح خانو ں میں یہ سہولت ختم کردیئے جانے کے بعد قدیم اصلاح خانہ بھی اس سہولت سے دستبردار ہونے لگے ہیں۔ اسی طرح سابق میں اصلاح خانو ں میں بال کٹوانے کے بعد سر اور گردن کی مالش بھی کی جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ بھی بتدریج بند کیا جانے لگا ہے کیونکہ نئے عصری اصلاح خانو ں میں اس سہولت کے لئے نوجوان سینکڑوں روپئے ادا کرنے لگے ہیں ۔ کارپوریٹ طرز کے اصلاح خانو ںمیں جس فیشن کے بال کاٹے جانے لگے ہیں ان پر بھی قدیم نائی طبقہ کو اعتراض ہے اور ان کا کہنا ہے کہ فیشن کے نام پر جس طرز کے بال کاٹے جانے لگے ہیں اس کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ان کی بھی مجبوری بن چکی ہے ۔