جناب معظم علی افتخار، صدر ٹی جی ای ایف اور جناب علیم خاں فلکی کی مخاطب
جدہ ۔ 11 اکٹوبر (ای میل) انڈیا فراٹرنیٹی فورم (آئی ایف ایف) کے ذریعہ اہتمام 9 اکٹوبر کو اسپائسیس رسٹورنٹ جدہ میں ڈپٹی سی ایم ریاست تلنگانہ الحاج محمد محمود علی کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں ہندوستان کے مختلف شہروں کے افراد نے شرکت کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہیکہ آئی ایف ایف سعودی عرب میں خدمت خلق کے کاموں کیلئے اپنے بلند عزائم رکھتی ہے۔ اس سال حج اکبر کے موقع پر تقریباً 1500 تنظیم کے کارکن نے منیٰ و عرفات میں حاجیوں کی بے مثال خدمات انجام دیں۔ اس تقریب کے موقع پر جناب معظم علی افتخار صدر تلنگانہ گلف ایمپلائز فورم و ٹی آر ایس قائد نے اپنے خطاب کے دوران اس بات کی خوشی ظاہر کی کہ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد علحدہ ریاست تلنگانہ ایک طویل تحریک کے بعد قائم ہوئی۔ انہوں نے دوران خطاب اس بات کی خواہش کی کہ ایرانڈیا کے مسائل بالخصوص زم زم کے درآمدات کے لئے اخراجات کو ختم کرنا فورم کے ایک عظیم کارنامہ میں شامل ہے۔ معظم علی افتخار نے جناب محمد محمود علی کو توجہ دلائی کہ این آر آئیز کو ہاؤزنگ، پنشن، بزنس اسکیمات اور دیگر ترقیاتی اسکیمات کی ضرورت ہے لیکن اس سے زیادہ ایک اہم مسئلہ تارکین وطن کے جو بیرون ملک جیلوں، ہاسپٹلوں میں سخت مشکلات کا سامنا کررہے ہیں کے علاوہ ایسے این آر آئیز کی خلیج میں اموات ہوئی ہو، انہیں اپنے وطن واپس بھیجنے کیلئے حکومتوں سے نمائندگی کریں جبکہ ڈاکٹر علیم خاں فلکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ تلنگانہ حکومت سب سے پہلے الیکٹریسٹی پر توجہ دیں بصورت دیگر کراچی، بہار اور یو پی کی طرح بربادی کا سامنا کرنا پڑے گا جہاں پر کئی کئی گھنٹے اسکول، کالج، کارخانے اور تجارتی ادارے برقی کی قلت کے سبب بری طرح متاثر ہورہے ہیں جس کا منفی اثر تعلیم اور معیشت پر بھی پڑے گا۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی نے اپنے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے تلنگانہ حکومت کی جانب سے غریب لڑکیوں کی شادی کے امداد پر تنقید کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ مدد دیگر اقوام کیلئے صحیح ہے لیکن مسلمانوں کیلئے افسوسناک ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے مرد کو عورت پر خرچ کرنے کا حکم دیا تو الٹا مردوں نے عورت سے گھوڑے جوڑے وصول کررہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کا ادعا کیا کہ غربت کا خاتمہ جہیز جیسی لعنت کو ختم کرکے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اب لوگ ایسی شادیوں کا بائیکاٹ کردیں جس کا حکم شریعت میں موجود ہے۔ اس موقع پر ڈپٹی چیف منسٹر تلنگانہ الحاج محمد محمود علی نے جونہی خطاب کا آغاز کیا ان کا فورم اور جلسہ میں شریک شرکاء نے والہانہ انداز میں تالیوں کی گونج میں خیرمقدم کیا۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے اس موقع پر آندھرائی افراد کے ہاتھوں تلنگانہ کے استحصال کی تفصیلات پیش کی اور کہا کہ آندھرائی افراد کے بڑے بڑے سرمایہ داروں نے تلنگانہ کو تباہ و برباد کردیا یہی نہیں بلکہ آندھراپردیش الیکٹرانک میڈیا نے بھی تلنگانہ کی مخالفت میں زور و شور سے نشریات کے ذریعہ لوگوں میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اس کے باوجود ٹی آر ایس پارٹی نے اپنے مستقل عزائم کے ذریعے ثابت کردیا کہ تلنگانہ والے ایک مستحکم حکومت قائم کرسکتے ہیں۔ جناب محمود علی نے مزید کہا کہ نظام حکومت نے جو انفراسٹرکچر دیا اسی کی بنیاد پر آندھرا والے حکومت کرکے کریڈٹ حاصل کرتے رہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ تلنگانہ ریاست میں 40 ہزار اقلیتی لڑکیوں کی شادیاں کروانا ہندوستان کی کسی ریاست میں کوئی کانارمہ کا ریکارڈ نہیں ہے ۔ اگر یہ کام حکومت کے منصوبہ کے مطابق بحسن خوبی انجام پاتا ہے تو ٹی آر ایس حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہوگی۔ انہوں نے صدر ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ کے بارے میں کہا کہ تلنگانہ عوام کی خوش قسمتی ہیکہ ایک انصاف پسند سیکولر قائد ملا ہے جو مسلمانوں سے اتنا ہی قریب ہے جتنا کہ دیگر اقوام کے افراد سے۔ جناب محمود علی نے کہاکہ حیدرآبادی رباط کے مسئلہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا گیا ہے جوکہ عازمین حج عمرہ کیلئے خوشی کی بات ہے۔ جناب محمد محمود علی نے جدہ میں مقیم ہندوستانیوں کے اخلاق، کردار، ملنساری و محنت کی تعریف کی اور کہا کہ ہندوستانیوں کی بہتر کارکردگی کی بنیاد پر ہی سعودی عرب میں انہیں خاص مقام ملا ہے۔ جناب عبدالمجید صدر آئی ایف ایف نے اس تقریب کی صدارت کی جبکہ نذیرفاروقی نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ شہ نشین پر ڈاکٹر سید علی محمود، قادر خاں، شمیم کوثر اور دیگر معزز افراد موجود تھے۔ اس موقع پر خاک طیبہ ٹرسٹ کی جنرل سکریٹری ٹوین سیٹیز ویلفیر کے عہدیدار بھی موجود تھے۔ انہوں نے ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ ریاست کے جناب محمود صاحب ایک ایسے ڈپٹی چیف منسٹر ہیں جنہوں نے اپنی طویل جدوجہد کے ذریعہ اس مقام پر پہنچے ہیں۔ جناب محمود علی پہلی ایسی شخصیت ہے جنہوں نے این آر آئیز کے مسائل اور رباط کے مسئلہ کو بذات خود دلچسپی لیتے ہوئے حل کروایا ہے۔ اس کے علاوہ این آر آئیز کے بچوں کے تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا پیشکش کیا ہے۔ جس پر ان کی جتنی بھی سراہنا کی جائے کم ہے۔