جب نواب میر عثمان علی خاں صدیقی بہادر نے حکومت ہند کو 5 ٹن سونا دیا

حیدرآباد ۔ 10 ۔ ستمبر : پاکستان کے خلاف 1965 کی جنگ میں کامیابی کے بعد اپنے ایک اور پڑوسی چین سے زبردست خطرہ لاحق رہا کرتا تھا کیوں کہ اس نے چینی ۔ ہندی بھائی بھائی کا نعرہ لگاتے ہوئے 1962 میں اپنے ہی بھائی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا تھا ۔ چنانچہ 1965 میں پھر ایکبار چینی فوج نے ہندوستان پر بری نظریں ڈالنی شروع کردیں تھیں ۔ ان حالات میں وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی حکومت نے کسی بھی امکانی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے سارے ملک میں فنڈز اکٹھا کرنا شروع کردیا اور اس مقصد کے لیے نیشنل ڈیفنس فنڈ قائم کیا گیا ۔ حکومت ہند نے دیسی ریاستوں کے ساتھ راج رجواڑوں سے مشکل کی اس گھڑی میں مدد کرنے کی درخواست کی لیکن ان لوگوں نے ایسی مدد نہیں کی جس کی ان سے توقع تھی ۔ اس دوران جئے جوان جئے کسان کا نعرہ لگانے والے شریف النفس وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے حیدرآباد کا رخ کیا انہیں اندازہ تھا کہ حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں صدیقی بہادر حکومت ہند کو مایوس نہیں کریں گے کیوں کہ لال بہادر شاستری سے لے کر کانگریس کا ہر لیڈر نظام دکن کی دریادلی اور دولت کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا ۔

چنانچہ لال بہادر شاستری حیدرآباد پہنچے اور انتہائی دھیمے لہجے میں 78 سالہ ( اس وقت نواب میر عثمان خاں بہادر کی عمر 78 سال ہی تھی ) آصف سابع سے شائد کہا ہو کہ آج چین ہماری سرحدوں پر بری نظریں ڈال رہا ہے ۔ سرحدوں پر خطرہ بڑھ گیا ہے ۔ ان حالات میں آپ جیسے مخیر شخصیتوں کی مدد کی ضرورت ہے ۔ ہمیں آپ سے مدد کی امید ہے اس لیے کہ آپ نے بنارس ہندو یونیورسٹی کو کسی زمانے میں 10 لاکھ روپیوں کا عطیہ دیا تھا ۔ خود آندھرا پردیش ، کرناٹک ، مہاراشٹرا وغیرہ میں کئی ایسی منادر ہیں جن کے لیے آپ نے جاگیریں عطا کی تھیں ۔ سینکڑوں غریب طلبہ کو آپ اور آپ کے والد محترم نے اسکالر شپس فراہم کرتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا ان طلبہ میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو بھی شامل ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ دنیا کے امیر ترین انسان ہیں جس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر ہی ہوتا ہے جو یہ نہیں دیکھتا کہ وہ ہندو کو دے رہا ہے یا مسلمان کی درخواست پر مثبت ردعمل کا اظہار کررہا ہے ۔ حیدرآباد کے تاریخی بیگم پیٹ ایرپورٹ پر لال بہادر شاستری کی اس گفتگو کو حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں بہادر بہت ہی غور سے سن رہے تھے اور ان کے چہرہ پر شاہانہ مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جب لال بہادر شاستری نے حضور نظام کے سامنے اپنی نظریں نیچے کیں تب نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے بڑے پیارے سے کہا جائیے ہم چین کی للکار کا جواب دینے کے لیے نیشنل ڈیفنس فنڈ میں 5000 کلو سونا ( 5 ٹن سونا ) دیتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ نواب میر عثمان علی خاں صدیقی بہادر نے بناء کسی ہچکچاہٹ کے اتنا بڑا وعدہ کرلیا جب کہ وہاں موجود لوگوں کے منہ شاید حیرت کے مارے کھلے کے کھلے رہ گئے ۔ لیکن آصف جاہ سابع نے نیشنل ڈیفنس فنڈ کے لیے 5 ٹن سونا عطیہ دیتے ہوئے ہندوستان کی تاریخ میں انفرادی عطیہ کا ایسا ریکارڈ قائم کیا جو آج تک نہیں توڑا جاسکا ۔

اس وقت اس سونے کی قیمت 75 لاکھ روپئے تھی اور آج کی بازاری قدر کے لحاظ سے اس کی قیمت تقریبا 1500 تا 1600 کروڑ روپئے ہوتی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی اس مشکل گھڑی میں مدد کرنے والے نواب میر عثمان علی خاں کے خلاف فرقہ پرست عجیب و غریب بکواس کرتے رہتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے آصف جاہی حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ۔ ریاست میں 17 ستمبر کو یوم آزادی منانے کی باتیں کرنے والے فرقہ پرست یہ نہیں بتا سکتے کہ کبھی ان کے کسی لیڈر نے ہندوستان کے لیے ایسا گرانقدر عطیہ دیا ہے ۔ خود بنارس ہند یونیورسٹی کو آر ایس ایس یا سنگھ پریوار کے لیڈر نے 10 لاکھ تو دور کی بات ہے اپنی جیب سے دس ہزار روپئے دئیے ہیں ۔ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھوں سے تعبیر کرنے والے اس رعایا پرور حکمراں کی آج بڑی سادگی سے برسی منائی گئی ۔ حالانکہ تلنگانہ و آندھرا میں آج جتنے بڑے آبپاشی پراجکٹس ہیں وہ آصف جاہی حکمرانوں بالخصوص نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے کارنامے ہیں ۔ ایشیا کا سب سے بڑا ہاسپٹل عثمانیہ جنرل ہاسپٹل ، یونانی دواخانہ ، چارمینار ، عثمانیہ یونیورسٹی ، عثمانیہ میڈیکل کالج اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ، جوبلی ہال ، اسمبلی کی عمارت ، بیگم پیٹ ایرپورٹ کا فروغ ، الکٹریسٹی ، ریلویز ، سڑکوں و فضائی پٹیوں اور تعلیمی شعبہ کے فروغ کا سہرا بھی نواب میر عثمان علی خاں بہادر کو جاتا ہے ۔

آج نریندر مودی جس شان سے بیرون ممالک کے وزرائے اعظم صدور اور حکمرانوں سے جس عمارت میں بات چیت کرتے ہیں وہ حیدرآباد ہاوز بھی حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں کا تعمیر کردہ ہے ۔ 6 اپریل 1886 کو پیدا ہوئے نواب میر عثمان علی خاں بہادر نے 80 سال کی عمر پائی اور 1911 تا 1948 اپنے دور حکمرانی میں بلا لحاظ مذہب و ملت رعایا کی خوشحالی کا خاص خیال رکھا ۔ سائنس وٹکنالوجی کے شعبہ پر خصوصی توجہ مرکوز کی تقریبا 223000 کلومیٹر رقبہ تک پھیلی سلطنت پر حکومت کے دوران وہ ساری دنیا کے دولت مند ترین شخص رہے ۔ 1940 کے اوائل میں وہ ارب ڈالرس کے مالک تھے ۔ آج کے دور میں وہ 40 ارب ڈالرس ہوتی ہے ۔ حیدرآباد دکن میں برسوں حکمرانی کے باوجود انہوں نے یا ان کے آبا و اجداد نے اسے اسلامی ملک بنانے سے گریز کیا جس سے ان کے سیکولر ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔ لیکن افسوس فرقہ پرست طاقتیں اس ہردلعزیز حکمراں کے خلاف زہر اگل رہی ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ چیف منسٹر کے سی آر حضور نظام کی پیدائشی تقاریب اور برسی سرکاری سطح پر منائیں اور ریاست میں ان کے نام سے کوئی خاص عوامی بہبود کی اسکیم شروع کریں ۔۔ mriyaz2002@yahoo.com