اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ شب و روز ہم لوگوں سے کتنے گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ بہت سارے گناہ تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ہمیں ان کے ارتکاب کا احساس تک نہیں ہوتا یا جن کو ہم گناہ نہیں سمجھتے، لیکن حقیقتاً وہ گناہ ہوتے ہیں۔ جب بھی ہمیں گناہ کا شعور اور احساس ہو جائے فوراً ’’استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ‘‘ کہہ کر اللہ تعالی سے معافی کے طلبگار ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جان بوجھ کر، ڈھیٹ بن کر گناہ کرتے جائیں اور ’’استغفراللّٰہ‘‘ کہتے جائیں۔ ایسا استغفار بارگاہ خداوندی میں بہت بڑی بے ادبی ہے۔ گناہوں سے بچیں، بچنے کی کوشش کرتے رہیں، پھر بھی گناہ ہوجائے تو فوراً استغفار کرکے اس گناہ کو اپنے نامہ اعمال سے مٹادینے کا بندوبست کریں۔
بچہ جب لکھنا سیکھتا ہے تو کاغذ، پنسل اور ربر لے کر بیٹھتا ہے، لکھنے میں اگر ذرا بھی غلطی ہو جائے تو ربر سے اس کو مٹا دیتا ہے۔ وہ جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا، اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ الفاظ اور حروف درست لکھے، لیکن اگر غلطی ہو جائے تو بلاتاخیر ربر سے اس کو مٹا دیتا ہے۔ بندۂ مؤمن کا بھی یہی حال ہے، وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ گناہ نہ ہو، لیکن اگر ہو جائے تو بلاتاخیر استغفار کے ربر سے اس کو فوراً مٹا دیتا ہے۔ ربر سے جس طرح بچے کی غلطی صفحۂ قرطاس پر باقی نہیں رہتی، اسی طرح استغفار سے بندۂ مؤمن کا گناہ بھی نامۂ اعمال میں باقی نہیں رہتا۔ اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اس نے استغفار کو ہمارے گناہوں کا تریاق بناکر ہمیں ایک نعمت عظمی عطا فرمادی۔ جب بھی غلطی ہو جائے فوراً استغفار کرلیں، تاکہ نامہ اعمال میں گناہ باقی ہی نہ رہیں اور جب نامہ اعمال میں گناہ نہ ہوں تو ان شاء اللہ تعالی آخرت میں سرخروئی نصیب ہوگی اور بڑی آبرومندی کے ساتھ جنت میں داخلہ ہوگا۔ اللہ تعالی کی شان غفاری دیکھئے کہ اس نے ہم گنہگاروں کی مغفرت کا کیسا سامان کر رکھا ہے، لیکن افسوس کہ ہم اپنی شامت اعمال کی وجہ سے اس سامان مغفرت سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ ہماری اس سے بڑی کم نصیبی اور کیا ہوگی کہ ہمارے خالق نے ہماری مغفرت کے دروازے کھول رکھے ہیں، لیکن ہم ایسے ناسمجھ اور ناشکر گزار ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ اللہ تعالی سے توفیق استغفار کی دعا کریں۔
گناہ ہو یا نہ ہو، استغفار بہرحال کرتے رہنا چاہئے۔ انسان کے دل میں نہ جانے معصیت کے کتنے تقاضے پیدا ہوتے رہتے ہیں، کتنے فاسد خیالات دماغ میں آتے رہتے ہیں، کتنے گناہ عمداً یا سہواً ہوتے رہتے ہیں۔ بعض گناہ تو ایسے ہوتے ہیں کہ ہمیں ان کا احساس تک نہیں ہوتا، اس لئے ہر وقت استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’میں دن میں ستر (۷۰) مرتبہ استغفار کرتا ہوں‘‘ اور بعض روایات میں ہے کہ ’’میں دن میں سو (۱۰۰) مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ یہ ۷۰ یا ۱۰۰ کا ہندسہ کثرت بتانے کے لئے ہے۔ نیکی اور نیک کام کرکے بھی استغفار کرنا چاہئے، کیونکہ نیک کام کرنے میں ہم سے جو کوتاہی ہو گئی ہوگی، اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگ لیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اختتام نماز پر سلام پھیرنے کے فوراً بعد ’’استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ‘‘ فرماتے تھے۔ مطلب یہ تھا کہ نماز میں جو کوتاہی ہو گئی ہو، اس پر اللہ تعالی سے مانگ لی جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل ہم امتیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہے۔
استغفار ایک ایسا عمل ہے کہ احساس ندامت کی وجہ سے احساس عبدیت پیدا ہوتا ہے، ایمان کی حفاظت ہوتی ہے، عجزوانکسار پیدا ہوتا ہے، رفتہ رفتہ تقویٰ کا مزاج بن جاتا ہے اور آدمی خود بخود گناہوں سے بچنے لگتا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا کتنا بڑا فضل و کرم ہے کہ ہم گنہگاروں کو استغفار جیسی نعمت عطا فرمادی۔ جب بھی کسی گناہ کا استحضار ہو جائے تو فوراً دل ہی دل میں یا زبان سے تین مرتبہ ’’استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ، استغفراللّٰہ‘‘ کہہ لیں، ان شاء اللہ تعالی اس سے سب گناہ معاف ہو جائیں گے۔ حضرت امجد حیدرآباد نے کیا خوب فرمایا ہے:
نادانی سے پہلے تو خطا کرتے ہیں
ہٹ کرکے اور بھی بُرا کرتے ہیں
جب تم سے کوئی گنہ ہو توبہ کرلو
میلے کپڑے کو دھو لیا کرتے ہیں
استغفار کے صابن کو بکثرت استعمال کرتے ہوئے اپنے دامن کو ہمیشہ پاک رکھنا چاہئے۔ مگر ایک اہم بات یاد رکھیں کہ یہ سب کچھ ان گناہوں کے بارے میں ہے، جو حقوق اللہ سے متعلق ہیں، لیکن جو گناہ حقوق العباد سے متعلق ہوں تو ان کو جس طرح بھی ممکن ہو ادا کرنا یا معاف کرانا ضروری ہے۔ مثلاً کسی کا مال ہڑپ کرلیا ہے تو مال واپس کرنا ہوگا، کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے معافی مانگیں۔ اگر متعلقہ شخص مر گیا ہے یا اس سے رابطہ ممکن نہیں تو اس کے لئے دعائے مغفرت کریں یا اپنی کسی نفل عبادت کا ثواب اس کو بخش دیں۔
بزرگان دین فرماتے ہیں کہ چھوٹے بڑے گناہ جب بھی یاد آجائیں، انتہائی ندامت کے ساتھ استغفار کرلیں۔ زیادہ سے زیادہ استغفار کرتے رہیں، سلوک و طریقت میں یہ ایک انتہائی مفید عمل ہے۔ چند استغفارات یہ ہیں، انھیں یاد کرلینا چاہئے:
(۱) استغفر اللّٰہ ربی من کل ذنب وخطیئۃ واتوب الیہ۔
(۲) اللّٰھم اغفرلی وارحمنی وتب علی انک انت التواب الرحیم۔
(۳) استغفر اللّٰہ العظیم الذی لَاالہ الّا ھوالحی القیوم واتوب الیہ۔
(۴) لَاالہ الّا انت سبحانک انی کنت من الظالمین (یہ بھی استغفار ہے)
(۵) اللّٰھم اغفرلی، رب اغفر وارحم وانت خیرالراحمین۔
(۶) اگر کوئی استغفار یاد نہ ہو تو صرف ’’استغفراللّٰہ‘‘ کہہ لیا کریں، یہ بھی کافی ہے۔
(۷) سید الاستغفار تمام استغفارات کا سردار ہے۔ مسبعات اربعین سے دیکھ کر یاد کرلیں۔ یہ استغفار ایک مرتبہ صبح اور ایک مرتبہ شام کو ضرور پڑھا کریں، اس میں اللہ کی نعمتوں کا اقرار بھی ہے اور اپنے گناہوں کا اعتراف بھی اور یہ اللہ تعالیٰ سے اپنے عہد و پیمان کی تجدید بھی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر کوئی صبح کو سید الاستغفار پڑھ لے اور شام سے پہلے اس کو موت آجائے تو وہ جنت میں جائے گا اور اگر شام کو پڑھ لے اور صبح سے پہلے اس کو موت آجائے تو وہ جنت میں جائے گا۔ یعنی یہ ایک طرح سے ’’حسن ِخاتمہ‘‘ کی ضمانت ہے۔ (اقتباس)
حضرت عثمان غنیؓ کی فیاضی
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کے اولین مہاجرین سے ہیں۔ پہلے آپ نے حضرت رقیہ اور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ بعثت کے پانچویں سال حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ بعد ازاں آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اس امت میں اہل و عیال کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کرنے والے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں‘‘۔(الاصابہ، جلد۸، تذکرہ رقیہ)
مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کے بھائی، اوس بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ سے ’’مواخاۃ‘‘ کردی تھی۔ اس بھائی چارہ کا اثر ہمیشہ ان دو خاندانوں میں برقرار رہا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ مالدار اور دولت مند تاجر ہونے کے ساتھ نہایت رحمدل، نرم خو، فیاض اور سخی تھے۔ اسلام کی سربلندی اور اہل اسلام کی ضروریات کے لئے آپ نے بے دریغ مال خرچ کیا۔ بئر رومہ کو بیس یا تیس ہزار میں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کردیا۔ بعد ازاں آپ نے بئر سائب، بئر عامر اور بئر اریس جس میں آپ کے ہاتھوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ انگوٹھی جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے چلی آرہی تھی، گر گئی تھی۔ ان تمام کنووں کو آپ نے مسلمانوں نے کے لئے وقف فرمایا۔
فیاضی و سخاوت کے ساتھ آپ بہت دلیر اور بہادر بھی تھے۔ عموماً غزوات میں آپ شریک رہے۔ غزوہ بدر میں حضرت بی بی رقیہ رضی اللہ عنہا کی ناسازی مزاج کی بناء حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ میں رہنے کا حکم فرمایا تھا۔ غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ بنی المصطلق کے موقعوں پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر فرمایا تھا۔
(تاریخ الخلفاء۔ امام سیوطی)