انیس عائشہ
تاریخ عالم نے کبھی اس طرح کی شخصیتیں دیکھی ہی نہیں تھیں، جنھوں نے اپنے تمام ارادوں، یقین اور مقصد کے ساتھ اپنی ساری زندگی انتہائی مجاہدانہ انداز میں بے خوفی اور بے غرضی کے ساتھ گزاری ہو، سوائے ان صحابہ کرام کے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ غور و فکر کا مقام ہے کہ کس طرح چند برسوں میں انھوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور کس طرح اللہ کے فرمان کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا، اس طرح کہ نور اسلام سے ساری دنیا جگمگا اُٹھی۔ ان صحابہ کرام کا ہر فرد دراصل ان ہزاروں لاکھوں لوگوں کی بھی نمائندگی کرتا ہے، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور معاون رہے۔ فرمان آگیا تھا ’’اے چادر لپیٹنے والے، اُٹھئے اور (لوگوں کو) ڈرائیے‘‘ (سورۃ المدثر) اس سادہ سے حکم میں وہ طاقت تھی کہ پہاڑ دہل جائیں، انتہائی صاف آواز میں اللہ کی توحید اور امن عالم کا پیغام دیا۔ عقل حیران ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کے معلم تھے کہ وہ ایسے مستقبل کا خواب دکھا رہے تھے، جو بظاہر امکان سے باہر تھا، لیکن اللہ کے رسول نے وہ حالات دیکھ لئے تھے، جو کسی خاص مستقبل کا پیش خیمہ تھے۔ اللہ پاک نے اپنے منتخب رسول کو آخری پیغمبر بنایا اور اتنا معتبر بنایا کہ اپنا پیغام ان کی زبانی بھیجا اور انتہائی رحم و کرم اور ہدایت سے جنت کا راستہ دکھایا۔
کیسی تاثیر تھی آپﷺ کے کلام میں کہ آن کی آن میں حضرت ابوبکر صدیق، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عثمان غنی، حضرت عبد اللہ بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپﷺ کو سچا مان کر اور آپ پر اعتماد کرکے اپنی برادری، دولت، عزت، شہرت چھوڑکر تکالیف برداشت کرنے، اختلافات میں گھرنے اور پیاروں کا ساتھ چھوڑنے کو تیار ہو گئے، جب کہ ان لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا تھا کہ نہ ان کے پاس دولت تھی، نہ اسلحہ، نہ لشکر۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ گھر سے نکلتے ہیں تو تلوار لے کر، دل میں دشمنی اور نفرت لے کر، پھر آن کی آن میں بدلتے ہیں تو وہی تلوار اسلام کے دشمنوں پر آزمانے کے کام آئی، یعنی اس تلوار کی دھار اللہ کے رسول کی محبت اور عقیدت کی وجہ سے اور تیز ہو گئی۔
سب یہ جانتے تھے کہ اہل مکہ دشمن ہو جائیں گے اور جان کے لالے پڑ جائیں گے، لیکن ان کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ وہی قرآن جو لوگ چھپ چھپ کر پڑھ رہے ہیں اور یاد کر رہے ہیں، یہی ایک دن انھیں سربلند کرے گا، اس کی گونج قیامت تک ہر جگہ سنائی دے گی۔
اس زمانے کے عربوں میں یہ خصوصیت تھی کہ قدموں کے نشان دیکھ کر پہچان لیتے تھے کہ یہ کس کے قدم ہیں، یا بات سن کر جان جاتے تھے کہ یہ بات سچ ہے یا جھوٹ۔ انھوں نے دیکھ لیا تھا کہ آپﷺ کا بچپن بھی عام بچوں جیسا نہیں تھا۔ کھیل کے لئے بلائے جاتے تو طبیعت مائل ہی نہ ہوتی۔ دائی حلیمہ نے شہادت دے دی تھی کہ یہ غیر معمولی بچہ ایک دن سارے جہان میں ممتاز ہو جائے گا اور یہ ہوکر رہا۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ملاقات کے لئے بلالیا۔
جاں نثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک جاں باز حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ آپ قریش کے بے حد خوبصورت نوجوان تھے۔ تاریخ نے ان کو مکہ معظمہ کی سب سے دیدہ زیب شخصیت کا نام دیا ہے۔ بے انتہا دولت مند گھرانے، عیش و عشرت اور ناز و نعم میں پروان چڑھنے والے حضرت مصعب بن عمیر بچپن ہی سے ذہین اور سمجھدار تھے۔ جب قریش کی تشویش اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بڑھی اور جابجا گفتگو ہونے لگی تو ان کی جستجو بڑھی اور ملاقات کی خواہش پیدا ہوئی۔ جب پتہ چلا کہ اللہ کے رسول اور ان کے جاں نثار ’’دارالارقم‘‘ میں جمع ہوتے ہیں تو ایک رات حضرت مصعب بن عمیر بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پاک کی تلاوت اور ساتھیوں کو عبادت کرتے دیکھا تو یکدم دل پلٹ گیا۔ آیات دُہرانے لگے، نکتہ رس تھے، عقل و فراست تھی، لہذا ایمان لاتے ہی درجۂ کمال کو پہنچ گئے۔
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ طے کرلیا تھا کہ باقی زندگی بہرحال اللہ کی رضا میں گزاریں گے۔ پھر سب نے یہ بھی دیکھا کہ شہزادوں جیسی زندگی گزارنے والا حسین ترین شخص دارالارقم کی محفل میں پھٹے پُرانے کپڑے پہنے سر جھکائے بیٹھا رہتا۔ ایک دن کھانا کھاتے اور دوسرے دن بھوکے رہتے۔ اسی دوران سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی کا سب سے بڑا کام ان کے ذمہ کیا اور حکم دیا کہ بیعت عقبہ کے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ جاکر اسلام پھیلایا جائے اور ہجرت کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ چند ہی دنوں میں ستر (۷۰) مسلمان بیعت عقبہ ثانی کے لئے جمع ہو گئے اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی تبلیغ سے سعد بن معاذ اور سعد بن عبیدہ مشرف بہ اسلام ہوئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ مدینہ کے لوگ آپس میں صلاح و مشورہ کرنے لگے کہ اگر سعد بن معاذ اور سعد بن عبیدہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں تو ہم کیوں پیچھے رہیں، لہذا مدینہ کا بڑا گروہ اسلام لے آیا۔
ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں احد کے میدان میں علم تھا۔ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے جا رہے تھے، اتنے میں قریش کے ایک سپاہی نے سامنے آکر تلوار چلائی، جس سے آپ کا سیدھا ہاتھ کٹ گیا۔ تب آپ نے علم دوسرے ہاتھ میں لے لیا اور بلند آواز سے کلمہ پڑھتے رہے۔ اس سپاہی نے بائیں ہاتھ پر وار کیا تو آپ نے علم کو بازو اور سینے کے سہارے بلند رکھا، عین اسی وقت دوسری طرف سے وار ہوا اور حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گرپڑے۔ یعنی آپ نے آخر وقت تک یہی کوشش کی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ پوری عقیدت و محبت کے جذبہ کے ساتھ لڑتے ہوئے آپ نے شہادت پائی۔ اپنے جاں باز شہید کو دیکھ کر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس صرف ایک چادر تھی، جسے بطور کفن آپ کے لئے استعمال کیا گیا۔ قبر میں لٹانے کے بعد جب وہ چادر آپ کو اُڑھائی گئی تو سر ڈھانکتے تو پیر کھل جاتے اور پیر ڈھانکتے تو سر کھل جاتا۔ تب اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے بادیدۂ نم فرمایا کہ ’’سر ڈھانک دو اور پیروں پر گھاس ڈال دو‘‘۔